لیے چندہ دینا، جب کوئی چیز وقف کی ملکیت میں آ جاتی ہے تو وقف اپنے قواعد کی روشنی میں وقف کے لیے چندہ دینے والے کو بھی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ گویا وقف کو چندہ دینے والے کے لیے وقف سے فائدہ حاصل کرنا جائز ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص مثلاً کسی مدرسہ کو چندہ دیتا ہے تا کہ اس میں مسلمانوں کے بچے زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوں …… تو اس کے لیے بھی جائز ہے کہ اپنے بچے کو بھی اس مدرسہ میں تعلیم دلوائے۔ یہ اس لیے کہ وہ وقف اسی مقصد کے لیے قائم ہوا ہے۔
اسی طرح وقف کی بنیاد پر جو تکافل قائم ہوتا ہے، وہ خاص قسم کے افراد یعنی ایسے افراد کے لیے قائم ہوتا ہے ، جنہیں مخصوص قسم کا نقصان پہنچ سکتا ہو ، تو اس وقف کو تبرع کے طور پر رقم دینے والا اسی طرح پول سے فائدہ اٹھاسکتا ہے جیسے مدرسہ یا قبرستان کو چندہ دینے والا۔ (تکافل، انشورنس کا اسلامی طریقہ،ص: ۱۰۰، ۱۰۱)
ہم کہتے ہیں
تکافل میں وقف فنڈ کو چندہ دینے اور اس سے نقصان کی تلافی حاصل کرنے کے اس نظام پر چند اشکال پیدا ہوتے ہیں ، جن کو خود صمدانی صاحب نے ذکر کیا ہے اور پھر ان کا جواب دیا ہے۔ لیکن ان کے جواب ناکافی ہیں اور دیے گئے نظام پر اعتراض باقی رہتے ہیں ۔ ان کے جواب نقل کرنے کے بعد ہم ان پر اپنا تبصرہ بھی دیں گے۔
پہلا اشکال
(مدرسہ یا کنویں کی ) جو مثالیں اوپر ذکر کی گئیں ان کے اندر وقف سے فائدہ