عقدِ معاوضہ ہے‘‘۔
میں کہتا ہوں :
اس کی وضاحت میں میں نے جو دلائل دئیے (دیکھیے ص: ۱۱۷، جدید معاشی مسائل) آپ نے ان سے صرف ِ نظر کر کے اپنی بات کا اعادہ کر دیا کہ
ــیہاں دونوں اپنی نوعیت کے اعتبار سے الگ الگ معاملات ہیں ……‘‘۔ حالاں کہ آپ کی اسی بات کے معارض کو میں نے دلائل سے ثابت کیا تھا۔
پانچواں سُقم:
آپ حضرات نے اشکال سوم کے عنوان کے تحت میری یہ عبارت نقل کی کہ
’’زیادہ پریمیم دینے والے کے لیے زیادہ نقصان کی تلافی ہونا اور کم پریمیم والے کے لیے کم نقصان کی تلافی ہونا اسے عقدِ معاوضہ بنا دیتی ہے‘‘۔
میں کہتا ہوں :
یہ عبارت بعینہٖ میری نہیں ہے۔ اور پھر جواب کے طور پر آپ نے پرانے دلائل کا اعادہ کیا یا حوالہ دیا۔ علاوہ ازیں ! آپ حضرات نے جن دلائل کا حوالہ دیا ہے یا جس بات کا اعادہ کیا ہے، انہی پر تو میں نے اپنے اعتراض رکھے تھے، میری کتاب جدید معاشی مسائل ، صفحہ: ۱۱۸ تا ۱۲۳ میں مندرج میری کسی بات کا جواب آپ نے نہیں دیا۔
چھٹا سُقم: