میں کہتا ہوں :
الفـ: شخص قانونی تو محض اعتباری ہوتا ہے جو نہ بول سکے اور نہ حرکت کر سکے۔ اس کو قائم رکھنے والے تو کمپنی کے ڈائریکٹر یا شرکاء ہوتے ہیں ۔ کوئی معاملہ کرتے ہیں ۔ توکیا کمپنی کے ڈائریکٹرخود اپنے آپ ہی سے معاملہ نہیں کرتے ؟
ب:یہ بات سوچنے کی ہے کہ مولانا تقی عثمانی مدظلہ نے اس صورت کے جائز ہونے کا جزم کس وجہ سے نہیں کیا؟ آپ حضرات ان سے پوچھ تو سکتے تھے۔
3: (تیسری بات)آپ حضرات لکھتے ہیں :
’’ یہ واضح رہے کہ آج کل تکافل کمپنیاں حضرت کے مقالہ میں ذکر کردہ صورتوں کے بجائے وکالہ بالاستثمار کی بنیاد پر کام کرتی ہیں …… لہٰذا ایسی ہر کمپنی پر تو یہ اشکال ہی وارد نہیں ہوتا‘‘۔
میں کہتا ہوں :
آپ کی اس بات سے معلوم ہوا کہ تکافل کمپنیوں میں اب ماشاء اللہ فقاہت بھی آگئی ہے، اس لیے وہ مولانا تقی عثمانی مدظلہ کی جزوی طور پر پابند نہیں رہیں ۔ علاوہ ازیں !یہ خرابی پھر بھی رہی کہ وقف کا متولی خود ہی وکیل بالاجرت بھی ہو اور مؤکل بھی ہو۔
ساتواں سُقم:
آخر میں آپ حضرات نے ’’اشکال‘‘ کا عنوان کے تحت یہ لکھا:
’’وقف النقود میں یہ اشکال ہو سکتا ہے کہ جو پیسہ واقفین نے دیا ہے، وہ پیسہ بعینہٖ باقی رہنا ناممکن ہو ، جب کہ وقف کی صحت کے لیے وقف کی عین کا باقی رہناضروری ہے‘‘۔