(حجۃ اللہ البالغۃ، من أبواب ابتغاء الرزق:۲؍۱۹۱،
دارالکتب العلمیۃ)
ان عبارات کا مفہوم یہ ہے کہ عاقدین(معاملہ کرنے والوں ) کا عاقل ،نفع و نقصان کو جاننے والا اور صاحب بصیرت ہونا ضروری ہے۔
اورظاہر ہے کہ شخصِ قانونی میں ان صفات کا پایا جانا ناممکن ہے ، جس کی بناء پر تمام معاملات حقیقت میں ڈائریکٹرزہی سر انجام دیتے ہیں ، چنانچہ وہ ڈائریکٹرز جب ایک شخصِ قانونی کو’’ رب المال ‘‘اور دوسرے شخصِ قانونی کو’’ مضارب ‘‘بناتے ہیں (اس حال میں کہ ان دونوں کے متولی وہ خودہوتے ہیں )تو نفس الامر میں وہ خود ہی عقد کے دونوں پہلو’’ رب المال اور مضارب ‘‘بنتے ہیں ، اس لئے کہ ڈائریکٹر حضرات ہی کمپنی اور وقف فنڈ دونوں کی نمائندگی کرتے ہیں ،گویا وہ یوں کہتے ہیں کہ (وقف فنڈ کی طرف سے) ہم مال ، مضاربت کے لئے دیتے ہیں اور (کمپنی کی طرف سے)ہم مال،مضاربت کے لئے وصول کرتے ہیں ، نتیجتاً ایک ہی فرد(حقیقی ) خود ہی رب المال ٹھہرا اور خود ہی مضارب ، جس کا شریعت میں کوئی تصور نہیں ہے۔
نیز اس صورت میں ایک اور خرابی اور فساد کا قوی اندیشہ ہے کہ ڈائریکٹران جو بھی دھوکہ، فراڈ یا غبن کرنا چاہیں وہ اس میں خود مختار ہیں ، نہ ہی کسی کو معلوم ہواور نہ ہی کوئی پوچھنے والا ہو۔
چوتھی خرابی:
جس طرح کوئی بھی پالیسی ہولڈر اپنا کسی بھی قسم کا تکافل کرواتا ہے اسی طرح ہر تکافل کمپنی کے لئے بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ بھی اپنا تکافل کروائے ،جس کو ’’ری تکافل‘‘ (Re-Takaful)کہا جاتا ہے،یہ ہر کمپنی کے لئے قانوناً لازمی ہے ، ایسا ممکن نہیں ہے