بنیادی طور پر درج ذیل اشکالات سامنے آئے۔ ذیل میں ان اشکالات کو ذکر کر کے ان کا جواب تحریر کیا جاتا ہے۔
اشکال ِ اول:
آپ ’’نقدی کے وقف کا صحیح ہونا ‘‘ اور ’’واقف کا اپنی زندگی میں انتفاع کی شرط لگانا‘‘ ان دونوں باتوں کو صحیح مانتے ہیں ، لیکن نقدی میں وقف علی النفس کی شرط کو غلط سمجھتے ہیں ، کیوں کہ آپ کی تحقیق کے مطابق اس صورت میں تلفیق لازم آتی ہے، جیسا کہ آپ لکھتے ہیں :
’’ہم کہتے ہیں وقف علی النفس کے قائل امام ابو یوسفؒ ہیں ، جو دراہم کے وقف کے قائل نہیں ، جب کہ دراہم کے وقف کے قائل امام زفرؒ ہیں ، جو وقف علی الفس کے قائل نہیں ؛ لہٰذا دراہم کا وقف ایسا حکم ہوا جو دو قولوں کی تلفیق سے حاصل ہوا‘‘۔ (ص: ۱۶)
پھر آنجناب نے منقولہ اشیاء کا وقف صحیح ہونے کی درج ذیل صورت بیان فرمائی ہے:
’’ منقولہ اشیاء میں صرف یہی صورت ممکن ہے کہ آدمی ان کو وجوہِ خیر میں فوری وقف کر دے اور شرط کر دے کہ وہ خود بھی دوسروں کے ساتھ فائدہ اٹھائے گایا وقف کے منافع کا حق دار ہونے کی وجہ سے دوسرے حق داروں کے ساتھ شریک ہو گا‘‘۔ (ص:۸،۹)
جواب:
یہ بات الگ ہے کہ مسؤلہ صورت تلفیق کی ہے یا نہیں ، جواب میں یہ بات ذکر