رب المال بنی اور ری تکافل مضارب بنی، چنانچہ مضارب نے ایک طرف تو رب المال کا ۲۰؍فیصد انوسٹ کیا اور دوسری طرف ممکنہ نقصان کی تلافی کے لئے قرض ِ حسنہ بھی فراہم کر رہی ہے، تو یہ التزام عقد ِ مضاربت میں شرطِ فاسد ہے ،جس سے مضاربت فاسدہو جائیگی۔
اِس اشکال سے بچنے کے لئے یہ تعبیر اختیار کی گئی کہ ’’ری تکافل کمپنی یہ بھی کر سکتی ہے…‘‘ حالانکہ ری تکافل کمپنی کا مقصد و موضوع ہی یہی ہے کہ وہ ممکنہ نقصانات میں تکافل کمپنی کی مدد کر سکے ، کیونکہ سوچنے کی بات ہے کہ تکافل کمپنی تو خود اپنے پالیسی ہولڈرز کے سرمایہ میں سے ۸۰؍فیصد انوسٹمنٹ کرتی ہے، ری تکافل کمپنی کو ۲۰؍فیصد دینے کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ متوقع خطرات سے نمٹا جاسکے، بہر حال اتنی بات تو یقینی ہے کہ ری تکافل کمپنی نقصان کی صورت میں قرض دے گی اور دیتی ہے (ورنہ تو تکافل کمپنی کا اس سے اپنا تکافل کروانا کچھ معنی نہیں رکھتا)اور یہ ایسا اقدام ہے جس سے مضاربت فاسد ہو جاتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
پانچویں خرابی:
ایک اور غور طلب پہلو! تکافل کمپنیوں کا ایڈمن فیس اور ایلوکیشن فیس لینے کا بھی ہے،جس کی تفصیل یہ ہے کہ آنے والے پالیسی ہولڈر سے وصول شدہ رقم میں سے اس کی کل رقم کا ایک بہت بڑا حصہ ایلوکیشن فیس کے نام سے کاٹ لیا جاتا ہے، جس کی مقدار مختلف قسم کے تکافل میں مختلف ہوتی ہے، مثلاً: ۸۰ ؍ فیصد ، ۸۵؍ فیصد،۹۰ ؍ فیصد وغیرہ۔پھر اگلے سال ۲۰؍ فیصد ،اور اس سے اگلے سال ۱۰ ؍ فیصد ایلوکیشن فیس کے نام سے کاٹ لی جاتی ہے، یہ ساری فیس تکافل کمپنی کے ایجنٹ اور ذمہ داران ِ کمپنی کی ملکیت ہوتی ہے، دوسری طرف دیکھا جائے تو اس جگہ (تکافل میں )اور انشورنس میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا