فإیجابھا علیٰ الجاني في مالہ یجحف بہ، فاقتضت الحکمۃ إیجابھا علی العاقلۃ علی سبیل المواساۃ للقاتل والإعانۃ لہ تخفیفا عنہ‘‘۔ (المغني: ۱۲؍۲۱)
’’ اس میں حکمت یہ ہے کہ غیر ارادی طور پر ہونے والے جرائم بکثرت ہوتے ہیں ، اور آدمی کی دیت بھی کافی زیادہ ہے، لہٰذا اس کو اکیلے خطاء کار کے مال میں واجب قرار دینا اس پر اس کے مال میں ناقابلِ برداشت ذمہ داری ڈالنے کے باعث ہے، چناں چہ حکمت کا تقاضہ یہ ہے کہ قاتل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے بطورِ ہمدردی اور اعانت اس کی دیت عاقلہ پر واجب قرار دی جائے‘‘۔
بلکہ غیر ارادی قتل میں دیت کا حکم بذاتِ خود تکافل کی ایک صورت ہے اور وہ یوں کہ بعض دفعہ مقتول کے بچے کم سن ہوتے ہیں جن کی تعلیم و تربیت کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، تو گویااسلام نے دیت مقرر کر کے ان کی کفالت کا انتظام کیا ہے۔
اس سے ثابت ہوا کہ اسلام نے تکافل کا ایک مضبوط نظام دیا ہے، اگر اس پر عمل ہو جائے تو تمام محتاجوں کی معاشی ضرورتیں پوری ہو سکتی ہیں ، لیکن بایں ہمہ اگر ضرورت پوری نہ ہو تو غنی مسلمانوں پر مزید خرچ لازم ہو جاتا ہے۔
اسلامی تکافل کی خصوصیت
اسلامی تکافل کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا بنیادی مقصد اپنے مستقبل کے خطرات کا تحفظ اور نقصانات کی تلافی ہر گز نہیں ، اور نہ ہی اس کو بطورِ کاروبار اختیار کیا جاتا ہے، بلکہ اسلامی معاشرے کا یہ شعار ہونا چاہیے کہ اس کے تمام افراد باہم مددگار و معاون ہوں اور ضرورت مندوں اور مجبوروں کی مدد کریں ۔