دینے کی اجازت منقول نہیں ۔نیز آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس طرح کمپنی خود ہی رب المال اور خود ہی مضارب بنتی ہے‘‘۔ (ص:۳۷)
جواب:
یہ بات صحیح ہے کہ فقہاء کرام نے متولی وقف کو صرف اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ مالِ وقف کو اجرت پر دے، مالِ وقف کو مضاربت پر دینے کی اجازت منقول نہیں ، لیکن منع بھی تو منقول نہیں ۔
آپ کا کہنا یہ کہ مضاربت کو اجارہ پر قیاس کرنا درست نہیں ، جس کی وجہ آپ نے یہ بیان فرمائی:
’’ شئے مستاجر غصب ہو جائے یا متولی وقف خود اجرت پر لے تو اجرتِ مثل دینی پڑتی ہے، جب کہ مضاربت میں ایسا نہیں ہوتا‘‘،
جس کا حاصل یہ ہے کہ اجرت میں وقف کا نقصان نہیں ہوتا، جب کہ مضاربت میں نقصان ہو سکتا ہے۔
یہ فرق اگرچہ قابلِ لحاظ ہے لیکن مضاربت کی صورت میں نقصان وقف کا احتمال تو اس صورت میں بھی رہتا ہے، جہاں مضارب ناظر یا متولی نہ ہو بلکہ کوئی اور شخص ہو، حالاں کہ اس کو فقہاء نے صراحۃً جائز قرار دیا ہے، نیز!اس معاملے کو اگر اس نظر سے دیکھا جائے کہ مضاربت اور اجارہ دونوں آمدنی کے ذرائع ہیں ، جن سے وقف کا فائدہ ہوتا ہے، تو جہاں رقم ڈوبنے کا اندیشہ نہ ہو، وہاں وقف کی اشیاء و مملوکات سے نفع حاصل کرنے کی گنجائش ہونی چاہیے، خصوصاً جب کہ وقف یا اس کے مملوکات ایسی چیزیں ہوں کہ انہیں کرایہ پر دینا ممکن نہ ہو، جیسے نقد روپیہ تو ایسی صورت میں مضاربت پر مال دینے کی بدرجہ