چوں کہ نقد میں یہ خوبی نہیں ، اس لیے اس کا کرایہ لینا بھی جائز نہیں ہے۔ اسی بناء پر امام نوویؒ اور علامہ ابن قدامہؒ نے درہم و دینار کے وقف کا جواز ان لوگوں کا مسلک بیان کیا ہے جو ان کا کرایہ لینا جائز سمجھتے ہیں ۔ملاحظہ ہو:روضۃ الطالبین:۲؍۲۵۴اور المغنی:۸؍۲۲۹۔
جب راجح مسلک کے مطابق ان کا کرایہ درست نہیں ہے اور مروجہ تکافل کے حامی بھی اس سے متفق ہیں اور وجہ بھی وہی بیان کرتے ہیں جو فقہاء نے وقف کے عدمِ جواز میں ذکر کی ہے کہ نقد کو استعمال کیے بغیر فائدہ اٹھانا ممکن نہیں ۔ (اسلامی بینکاری کی بنیادیں ، از مولانا تقی عثمانی، ص: ۱۶۹)
اور اسی طرح تکافل کے مؤیدین بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ روپیہ پیسہ ایسی چیز نہیں جس کو باقی رکھ کر مستفید ہوا جاسکے، تو پھر فقہائے کرام کی اس شرط کہ ’’وقف وہی چیز ہو سکتی ہے، جو باقی رہ کر قابلِ فائدہ ہو‘‘ کو نظر انداز کر کے وقف کے جواز کا فتویٰ دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔
ایک شبہ کا ازالہ
جو حضرات نقد کے وقف کے قائل ہیں ، ان کے خیال میں روپے پیسے کو بھی باقی رکھ کر فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے اور وہ یوں کہ اس سے کاروبار کیا جائے اور جو نفع ہووہ خرچ کر دیا جائے، اصل کو باقی رکھا جائے، تو یہ توجیہ دو وجہ سے درست نہیں ہے:
٭ ایک تواس لیے کہ یہ صورت روپے پیسے کو اس کی اصل حیثیت میں باقی رکھ کر فائدہ حاصل کرنے کی نہیں ۔اس طرح کا فائدہ توروپے پیسے کو کرایہ پر بھی لے کر لیا جا سکتا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ شرعاً جائز نہیں ، کیوں ؟ اس لیے کہ اس قسم کا فائدہ نقد کی تخلیق کا اصل مقصد نہیں ہے، جیسا کہ علامہ ابن قدامہ حنبلیؒنے المغنی میں لکھا ہے۔
٭ دوسرا اس لیے کہ روپے پیسے کو کاروبار میں لگانے سے فائدہ کی بجائے