(مقروضوں ) کے قرضے ادا کر دئے ہیں ، پھر بھی مسلمانوں کے بیت المال میں رقم بچ گئی ہے، آپؒ نے لکھا کہ ہر ایسے کنوارے کو تلاش کرو جس کے پاس مال نہ ہو ، مگر وہ شادی کرنا چاہتا ہو، اس کی شادی کراؤ، اور اس کا مہر ادا کرو، گورنر نے لکھا کہ میں نے جس کسی کوایسا پایا ، اس کا نکاح کرا دیا ہے، مگر پھر بھی بیت المال میں رقم باقی ہے، آپؒ نے لکھا کہ ہر ایسے ذمی(شخص ) کو تلاش کرو جس پر جزیہ ہو، اور (مفلسی کے باعث ) اپنی زمین آباد کرنے سے عاجز ہو، اسے قرضہ دو تا کہ وہ اپنی زمین (کی آباد کاری) کا کام کرنے کے قابل ہو جائے، کیوں کہ ہم ان (ذمیوں ) کو صرف ایک سال یا دو سال کے لئے ہی نہیں رکھنا چاہتے (بلکہ ان سے حسن و سلوک کا طویل رشتہ چاہتے ہیں )‘‘۔
اس روایت سے خوب اچھی طرح اندازہ ہو جاتا ہے کہ اسلام کا نظامِ کفالت ِ عامہ کتنا جامع اور وسیع ہے کہ وسائل کی دستیابی کے ساتھ ساتھ اس کا دائرہ بڑھتا جاتا ہے اور پھیلتا جاتا ہے، اور پھر رعایا کی ضروریات کی تکمیل کا اندازہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ایک ارشاد سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، فرمایا:
’’أما واللہ! لئن بقیت لأرامل أھل العراق لأدعنھن لا یفتقرن إلیٰ أمیرٍ بعدي‘‘۔(کتاب الخراج لیحییٰ بن آدم القرشي، باب الرفق بأھل الجزیۃ،رقم الحدیث:۲۴۰،ص:۷۳، المکتبۃ العلمیۃ)
فرمایا:’’اللہ( جل شانہ) کی قسم ! اگر میں اہلِ عراق کی بیواؤں کے لئے (اگلے سال تک) زندہ رہ سکا، تو انہیں ایسا (غنی) کر دوں گا کہ وہ میرے بعد کسی امیر کی اعانت کی محتاج نہیں رہیں گی‘‘۔اور پھر ان خواہشات کی تکمیل حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے دور ِ خلافت میں ہوئی جس کی طرف ان کے ایک گورنر یحییٰ بن سعید نے اشارہ کیا ہے،