عوض کے لالچ یا توقع کے بغیر تکافل کمپنی کے دفتر میں قدم نہ رکھتا ہو اور پوری لکھت پڑھت کی جاتی ہو، وہاں اس قسم کے حیلے بہانے معاملہ کی حقیقت کو نہیں بدلتے، ورنہ تو معاشیات کے اس انتہائی ترقی یافتہ دور کے لوگ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ معاشیات میں اسلام کے پاس سوائے حیلے بہانوں کے اور کچھ نہیں ہے۔
دوسرا اشکال
صمدانی صاحب لکھتے ہیں :
’’ وقف کا یہ طریقہ بھی ہے کہ جو زیادہ عطیہ دے ( یعنی: زیادہ پریمیم دے) وہ اس شخص سے زیادہ نقصان کی تلافی کا حق دار ٹھہرتا ہے، جو اس کے مقابلے میں کم عطیہ دے، کہ وہ کم نقصان کی تلافی کا حق دار ٹھہرتا ہے، گویا عطیہ (پریمیم) کی کمی اور زیادتی کی بنیاد پر نقصان کی تلافی میں کمی زیادتی کرنا اسے عقدِ معاوضہ کے قریب کر دیتا ہے‘‘۔ (تکافل،ص: ۱۰۲)
صمدانی صاحب کا جواب
پالیسی ہولڈرتبرع (عطیہ) کے طور پر وقف پول میں جو رقوم جمع کرائیں ، اس میں کمی زیادتی کی بنیاد پر کم یا زیادہ نقصان کی تلافی اگر پالیسی ہولڈر کا قانونی حق نہ ہو بلکہ وقف کی طرف سے صرف وعدہ ہو تو پھر یہی معاملہ بلاشبہ عقدِ معاوضہ میں داخل نہیں ، اس لیے کہ عقد ِ معاوضہ میں ہر فریق کو اپنا معاوضہ لینے کا حق حاصل ہوتا ہے، جب کہ یہاں ایسا نہیں ہے۔ (تکافل،ص: ۱۰۳)