نے(بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا )یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے، جوکچھ تھوڑا بہت گھر میں موجود تھا وہ دیا، اور پھر بیت المال کے خزانچی کے پاس فرمان بھیجا کہ یہ اور اس جیسے دوسرے حاجت مندوں کی تفتیش کرو، اللہ کی قسم! ہم اس کے ساتھ ہر گز انصاف نہیں کر سکتے کہ اس کی جوانی کی محنت (بصورتِ جزیہ) تو کھائیں مگر اس کے بڑھاپے میں اسے بھیک مانگنے کے لئے چھوڑ دیں ، قرآن پاک میں ہے:{إنما الصدقات للفقراء والمساکین}اورمیرے نزدیک یہاں ’’فقراء‘‘ سے مرادمسلمان مفلس ہیں (اور ’’مساکین ‘‘سے مراد اہل کتاب کے مساکین و فقراء ہیں ) اور یہ سائل مساکینِ اہلِ کتاب میں سے ہے، اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا جزیہ معاف کر دیا‘‘۔
مذکورہ بالا اور اس جیسی اور بہت سی نظائر سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کا نظامِ کفالت بلا تمیزمسلم و کافر سب کے لئے ہے ، یہ ایسا ابرِ رحمت ہے جو باغ اور کوڑے کرکٹ ، ہر جگہ برستا ہے۔
کن کن ضروریات کو پورا کیا جائے گا؟
انسان کی ضروریات دو قسم کی ہیں :اول وہ ضروریات جن پر انسان کی زندگی کا دارومدار ہے، اور دوسری وہ ضروریات جو حیاتِ انسانی میں نکھار کا سبب بنتی ہیں :
پہلی قسم کی ضروریات:
ضروریات کی اس قسم میں بنیادی طور پر خوراک، لباس، جائے سکونت، اور ابتدائی و ضروری طبی امداد شامل ہے، اسلامی حکومت مذکورہ تمام ضروریات کو پورا کرے گی، مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی ؒ لکھتے ہیں کہ :’’اسلامی حکومت کے سربراہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر فرد خواہ وہ امیر ہو یا فقیر ، مرد ہو یا عورت کواس کی استعداد اور حالت کے مطابق