صلاحیت مانتے ہیں ۔ پھر جب چندہ دہندگان وقف فنڈ کو چندہ دیتے ہیں اور وقف فنڈ اس کا مالک بن جاتا ہے اور وقف فنڈ چندے کی بنیاد پر (ہی) نقصان کی تلافی کرتا ہے (کیوں کہ وقف فنڈ کی شرط یہ ہے کہ جو اس کو چندہ دے گا وہ اسی کے نقصان کی تلافی کرے گا) تو یہ بھی عقدِ معاوضہ ہوا اور دونوں کی حقیقت تو ایک ہوئی۔ جب ایک عقدِ معاوضہ ہے تو دوسری جگہ بھی عقدِ معاوضہ ہوگا۔
اور عقدِ معاوضہ ہوتے ہوئے تلافی کمی بیشی کے ساتھ ہو تو سود بن جاتی ہے اور تلافی کے غیر یقینی ہونے کی وجہ سے قمار(جوا) بن جاتا ہے۔اور بعینہٖ یہی خرابیاں غیر اسلامی انشورنس میں ہیں ۔
تیسری باطل بنیاد: تکافل کمپنی کا خود ہی رب المال ہونا اور خود ہی مضارب ہونا
چوں کہ ایک ہی شخص رب المال بھی ہو اور مضارب بھی ہو، یہ جائز نہیں ، اس لیے ہم نے اس باطل بنیاد کی نشاندہی کی۔ اس پر مفتی عصمت اللہ صاحب اور ڈاکٹر اعجاز احمد صمدانی صاحب جواب میں لکھتے ہیں :
’’ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کمپنی خود ہی رب المال اور خود ہی مضارب بنتی ہے، یہ درست نہیں ، بلکہ اس صورت میں وقف فنڈ کا پول جو کہ شخصِ قانونی ہے وہ رب المال ہوتا ہے، اور کمپنی مضارب ہے‘‘۔ (تحریرنمبر: ۱، ص : ۶)
ہم کہتے ہیں :
ہماری بات غلط نہیں ، کیوں کہ اِن حضرات کے بقول وقف فنڈ بھی شخص ِ قانونی ہے اور کمپنی بھی شخصِ قانونی ہے، جس کی طرف اگرچہ حقوق و ذمہ داریوں کی نسبت کی جا سکتی ہے، لیکن وہ خود معنوی اور اعتباری ہوتا ہے، یعنی: گونگا بہرا بلکہ بے جان ہوتا ہے۔ حقوق