عبارات ہذا سے مندرجہ ذیل امور مستفاد ہوتے ہیں :
(1) ۔ واقفین خود کمپنی مالکان ہوتے ہیں ۔
(2) ۔ موقوفٌعلیہم (جن کے لیے وقف قائم کیا جا رہا ہے )اس وقف فنڈ کو چندہ دینے والے متضررین(یعنی وہ افراد جومخصوص حادثات یا نقصان کا شکار ہوئے ہوں ) ہوتے ہیں نہ کہ ہر خاص و عام۔
(3) ۔ وقف تحلیل (بے کار ، ختم یا دیوالیہ ) ہونے کی صورت میں مالِ موقوفہ ختم نہ ہونے والی جہاتِ خیریہ میں خرچ کیا جائے گا ۔
نیز!یہ بات یاد رہے کہ تکافل کروانے میں خود کمپنی مالکان بھی داخل ہوتے ہیں ،اور دیگر شرکاء ِتکافل بھی اغنیاء ہی ہوتے ہیں ۔
پہلی خرابی:
مذکورہ تفصیل کے بعدجاننا چاہیئے کہ
شرعاً نقود وقف کرنے والے خود اپنی وقف کردہ منقولی شئے(نقود) سے منتفع نہیں ہو سکتے ،اس کی کوئی نظیر شریعت میں نہیں ملتی۔
اس بارے میں مجوزین حضرات جو نظائر پیش کرتے ہیں وہ سب غیر منقولی اشیاء کے وقف سے خود واقف کے منتفع ہونے کی ہیں ،نہ کہ منقولی اشیاء کے وقف سے منتفع ہونے کی ۔(ملاحظہ ہو: تکافل کی شرعی حیثیت،ص:۴۸-۵۰)
اور دوسری طرف منقولی اشیاء کے وقف سے فائدہ اُٹھانے کی جتنی مثالیں ہیں وہ خلافِ قیاس نص سے ثابت ہیں ،چنانچہ ان پر قیاس کرتے ہوئے دیگر منقولی اشیاء سے واقف کا خود نفع اٹھانا ٹھیک نہیں ۔
گویااس صورت میں یہ واقف خود اپنے اوپر نقود وقف کرنے والا ہے جس کو