علامہ شامی رحمہم اللہ نے بھی اختیار کیا ہے تو اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ جب انہوں نے دلیل ذکر کی ہے تو دلیل کی حقیقت کو دیکھا جائے گا ،اشخاص کو نہیں ۔
2۔ دوسری باطل بنیاد، یہ سود اور قمار پر مبنی ہے۔
اوپر ہم مولانا تقی عثمانی مدظلہ کی یہ دو باتیں ذکر کر چکے ہیں ، جو دوبارہ ذہن نشین کر لینی چاہئیں ۔
۱۔إن الوقف لہ شخصیۃ اعتباریۃ في کل من الشریعۃ والقانون۔
قانون اور شریعت دونوں ہی میں وقف کو قانونی و اعتباری شخصیت حاصل ہے۔
۲۔ما یتبرع بہ المشترکون یخرج من ملکھم ویدخل في ملک الصندوق الوقفي وبما أنہ لیس وقفا وإنما ھو مملوک للوقف۔
پالیسی ہولڈر جو چندہ دیتے ہیں ، ان کی ملکیت سے نکل کر وقف فنڈ کی ملکیت میں داخل ہو جاتا ہے اور وہ وقف کی ملکیت بنتا ہے، خود وقف نہیں بنتا۔
مولانا تقی عثمانی کے دارالعلوم کراچی کے ایک استاذ ڈاکٹر مولانا اعجاز احمد صمدانی صاحب کچھ وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ وقف چوں کہ خود شخص قانونی ہے اور دیے گئے عطیات براہِ راست وقف کی ملکیت میں چلے جاتے ہیں اور وقف پھر اپنے طے کردہ ضوابط کی روشنی میں کلیمز (Claims) کی ادائیگی کرتا ہے، اس لیے وقف کا نظام زیادہ قابل ِ اطمینان ہے‘‘۔
’’ جو لوگ وقف کی بنیاد پر بننے والے پول کو تبرع (Donate) کرتے ہیں وہ تبرع وقف کی ملکیت میں چلا جاتا ہے اور اس کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی وقف ، مثلاً: مدرسہ یا قبرستان کے