ناگزیر ہے۔
اور ابن نجیم رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں :
وقد یقال إن الوقف علی الغني تصدق بالمنفعۃ لأن الصدقۃ کما تکون علی الفقراء تکون علی الأغنیاء وإن کان التصدق علی الغني مجازا عن الھبۃ عند بعضھم وصرح في الذخیرۃ بأن في التصدق علی الغني نوع قربۃ دون قربۃ۔ (البحر الرائق: ۵؍۱۸۷)
ترجمہ : کہا جاتا ہے کہ غنی پر وقف منفعت کا صدقہ ہوتا ہے کیونکہ صدقہ جیسے فقراء پر ہوتا ہے اسی طرح اغنیاء پر بھی ہوتا ہے اگرچہ بعض حضرات کے نزدیک غنی پر صدقہ کا مطلب ہبہ و ہدیہ ہوتا ہے اور ذخیرۃ میں تصریح ہے کہ غنی پر صدقہ بھی ایک نوع کی قربت اور نیکی ہے جو فقیر کے ساتھ نیکی سے کم درجے کی ہوتی ہے۔
ہم کہتے ہیں
کہ غنی پر صدقہ والی بات اگرچہ فی نفسہ کمزور ہے لیکن اگر اسکو تسلیم بھی کیا جائے تو اسکا فائدہ فقط اتنا ہوگا کہ وقف علی النفس یا وقف علی الاغنیاء کے وقف ہونے کی ایک توجیہ بن جائے گی لیکن اس کے باوجود بالآخر اسکا ابدی طور پر فقراء پر یا مصالح مسجد پر وقف ہونا لازمی ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ فقراء پر صدقہ قربتِ مقصود ہے جبکہ اغنیاء پر صدقہ اگر قربت بھی ہو تو وہ اس درجہ کی نہیں کہ اس کو آخرت کے اعتبار سے مقصود کہا جا سکے بلکہ عام طور سے امیروں کو دینے کو نیکی سمجھا ہی نہیں جاتا سوائے اس کے کہ ساتھ میں پائی جانے والی اچھی نیت نیکی اور ثواب کا باعث ہوتی ہے۔