کیا نقدی کو وقف کیا جا سکتا ہے؟
یہاں یہ بحث بھی بڑی اہم ہے کہ روپیہ پیسہ وقف کیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ کیوں کہ تکافل کمپنی کی پوری عمارت اس پر استوار ہے، لہٰذا ہم اس مسئلہ کو قدرے تفصیل سے بیان کرتے ہیں :
اکثرفقہاء اور اہلِ علم کی رائے میں روپے پیسے اور درہم کا وقف ہی درست و جائز نہیں ۔ چناں چہ! فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں ہے:
وقال الشافعي: کل ما أمکن الانتفاع بہ مع بقاء أصلہ ویجوز بیعہ یجوزوقفُہ، وھٰذا قول مالک وأحمد أیضاً وأما وقف ما لا ینتفع بہ إلا بالاتلاف کالذھب والفضۃ والمأکول والمشروب فغیر جائزفي قول عامۃ الفقھاء والمراد بالذھب والفضۃ:الدراھم والدنانیر وما لیس بحليّ۔
’’امام شافعی ؒ نے کہا ہے کہ ہر وہ چیز جس کو باقی رکھ کر اس سے فائدہ حاصل کرنا ممکن ہو اور اس کی بیع بھی جائز ہو تو اس کا وقف بھی درست ہے۔یہ امام مالک ؒاور امام احمد ؒ کا بھی قول ہے، رہا اس چیز کا وقف جس کو صَرف کیے بغیر استفادہ ممکن نہ ہو، جیسے سونا، چاندی اور کھانے پینے کی اشیاء وغیرہ تو عام فقہاء کے نقطہ نظر سے ایسا وقف جائزنہیں ہے، سونے اور چاندی سے مراد درہم، دینار اور وہ سونا ہے، جو زیور کی شکل میں نہ ہو‘‘۔
شارح بخاری علامہ ابن بطالؒ لکھتے ہیں :
’’قال أبو حنیفۃ و أبو یوسف لا یجوز وقف