’’کتب عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ إلی عبد الحمید بن عبد الرحمن ، وھو بالعراق،’’أن أخرج للناس أعطیاتھم‘‘ فکتب إلیہ عبد الحمید، ’’إني قد أخرجت للناس أعطیاتھم، وقد بقي في بیت المال‘‘فکتب إلیہ:’’أن انظر کل من أدان في غیر سفہ ولا سرف، فاقض عنہ‘‘ فکتب إلیہ:’’إني قد قضیت عنھم، قد بقي في بیت مال المسلمین مالٌ‘‘فکتب إلیہ:’’أن انظر کل بکرٍ لیس لہ مالٌ، فشاء أن تزوجہ، فزوِّجہ واصدق عنہ‘‘ فکتب إلیہ:’’إني قد زوّجتُ کل من وجدتُ، وقد بقي في بیت مال المسلمین مالٌ‘‘ فکتب إلیہ:بعد مخرج ھذا،’’ أن انظر من کانت علیہ جزیۃ فضعف عن أرضہ فأسلفہ مایقوي بہ علیٰ عمل أرضہ، فإنا لا نریدھم لعامٍ ولا لعامین‘‘ قال:قال العمري ھٰذا أو نحوہ‘‘۔(کتاب الأموال لأبي عبید، الجزء الثالث:صنع عمر بن عبد العزیزفيتقسیم الفيء:۱؍۳۶۳، دارالہدي النبوي، مصر)
مذکورہ روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ :’’حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے اپنے گورنر کے نام لکھا کہ وہ لوگوں کے عطایا ان کو ادا کرے، گورنر نے جواب لکھا کہ میں نے عوام کے عطایا انہیں اداکر دئیے ہیں ، مگر بیت المال کی رقم بچ گئی ہے (اس کا کیا کروں ؟) تو آپ ؒ نے لکھا کہ ایسے مقروضوں کو تلاش کرو جنہوں نے کسی بغیر نادانی کے کاموں کے ، یا بغیر فضول خرچی کے قرض لیا ہو، ان کا قرض ادا کر دو، گورنر نے لکھا کہ میں نے ایسے تمام