قانونی اور کچھ اخلاقی ذمہ داریاں ہیں ، قانونی ذمہ داریوں کو ’’صدقاتِ واجبہ‘‘(مثلاً:زکوٰۃ، عشر ، صدقۃ الفطر، کفارات، اور نذور ، میراث اور نفقات وغیرہ) اور اخلاقی ذمہ داریوں کو’’انفاق‘‘ (مثلاً:صدقاتِ نافلہ، قرضِ حسنہ، ہبہ، عاریت، وصیت، امانت، اوقاف وغیرہ)سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
پھر اس کے بعد سوال یہ پید اہوتا ہے کہ یہی سرکاری ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لئے مصارف کہاں سے اور کیسے لائیں گے؟اس کے لئے کون کون سے ذرائع اختیار کئے جائیں گے؟تو یہ مصارف اور ذرائع آمدنی اسلام میں متعین ہیں ، مثلاً: زکوٰۃ، خمس، متعین شرائط کے ساتھ جائز ٹیکس، اموالِ فاضلہ، خراج، منافع تجارت وغیرہ۔
خلاصہ کلام!اگر مندرجہ بالا شعبوں کا احیاء ہو جائے اور یہ مصروف ِ عمل ہو جائیں تو ممکن ہی نہیں کہ ملک میں دولت کے ذخائر پر محض چند اور مخصوص افراد قابض ہوں ، اور گردشِ دولت کا بہاؤ صرف اور صرف سرمایہ کاروں کی طرف ہی ہو ، اور اس کے برعکس دوسری طرف غریب طبقہ ظلم کی چکی میں پِس رہا ہو، اور بھوک پیاس کی حالت میں ایک ایک لقمے کا محتاج ہو۔
اگر اسلام کا یہ نظام ِ کفالت وجود میں ہوتو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں غیروں کے بنائے ہوئے نظامِ انشورنس وغیرہ کا سہارا لینا پڑے اور اپنے دین و مذہب کا خون کرنا پڑے۔ البتہ اس کے لئے انتھک محنت کرنا ہو گی، کہ جس طرح آج سے چودہ سو سال قبل یہ نظامِ کامل پوری طرح چمکتا ہوا ،انسان کو انسان اور جہالت و نفسانیت میں ڈوبے معاشرے کو ایک صالح اور پُر امن معاشرے میں ڈھال چکا تھا ، جس کی حقانیت کا اعتراف اپنے تو اپنے ، غیربھی کرنے پر مجبور ہوگئے، اسلامی اخوت اور بھائی چارے کی ایسی ایسی مثالیں قائم ہوئیں کہ آج تک مغربی معاشرہ اس کی کوئی نظیر پیش نہ کر سکا، تو کوئی وجہ نہیں کہ کوئی نظام اس