جائے گی‘‘۔
اسی تناظر میں دور فاروقی کا بھی ایک واقعہ ملاحظہ کر لیا جائے جسے امام ابو یوسف ؒ نے اپنی کتاب الخراج میں نقل کیا ہے:
’’قال: وحدثني عمر بن نافع عن أبي بکر قال:مرّ عمر بن الخطاب رضي اللہ عنہ بباب قومٍ وعلیہ سائلٌ یسأل ،شیخٌ کبیرٌ، ضریر البصر، فضرب عضُدہ من خلفہ وقال: مِن أيِّ أہل الکتاب أنتَ؟فقال: یھوديٌ، قال: فما ألجأک إلی ما أریٰ؟ قال: أُسأَلُ الجزیۃَ، والحاجۃُ، والسِنُّ، قال: فأخذ عمر بیدہ و ذھب بہ إلی منزلہ ، فرضَخ لہ بشیٔ من المنزل، ثم أرسل إلی خازنِ بیتِ المال، فقال:اُنظر ھذا و ضُربائَہ، واللہ ماأنصفناہ أن أکلنا شبیبتَہ، ثم نخذُلہ عند الھرَم{إنما الصدقات للفقراء والمساکین} و’’الفقراء‘‘ من المسلمین، وھذا من ’’المساکین‘‘ من أھل الکتاب، ووضع عنہ الجزیۃَ وعن ضُربائِہ، قال أبو بکر:أنا شہِدت ذلک من عُمَرَ و رأیتُ ذلٰک الشیخَ ‘‘۔(کتاب الخراج لأبي یوسف، في من یجب علیہ الجزیۃ،ص:۱۲۶، الطبعۃ السلفیۃ، القاھرۃ)
’’اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک نابینا بوڑھے شخص کو بھیک مانگتے دیکھا، اس سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ یہودی ہے، بھیک مانگنے کا سبب دریافت کیا تو اس نے جواب دیا کہ جزیہ کی ادائیگی، معاشی ضروریات اور پیرانہ سالی