جائے گا ؟یا اُن کو شرعاً برداشت کر لیا جائے گا ؟ جن کو خودمجوزین حضرات شمار کروا کے اُس نظام کو مسترد کر چکے ہیں ،نیز! یہ مجبوری ،آیا وہ مجبوری بھی ہے کہ جس میں کسی قدر گنجائش کا حصول ممکن ہو،یہ مقام بھی اہل علم حضرات کے لئے غور طلب ہے۔
لہٰذا ری تکافل کمپنیوں سے تکافل کمپنیوں کا تکافل کروانا جائز نہیں ہے ،اور اگر ری تکافل کمپنیاں وقف کی بنیادپر بھی ہوں تو بھی ان میں وہ تمام خرابیاں موجود ہیں جو پیچھے تفصیل سے ذکر کی جا چکی ہیں ۔
اس سے ہٹ کر ’’تکافل کی شرعی حیثیت‘‘ میں ذکر کردہ یہ عبارت کہ ’’ری تکافل کمپنی یہ بھی کر سکتی ہے کہ کمی کی صورت میں ری تکافل شئیر ہولڈرز فنڈ سے تکافل کو قرض حسنہ دے ، تا کہ وہ اس سے اپنے مقاصد اور ضروریات پوری کر سکے‘‘، مضاربت فاسدہ کو بھی بتا رہی ہے۔(اس کی تفصیل آگے آرہی ہے)
ذکر کردہ تعبیر ظاہر کر رہی ہے کہ ’’ری تکافل کمپنی قرض دینے کی پابند نہیں ‘‘تاکہ یہ اشکال نہ ہو سکے کہ کمپنی نے رقم دو اغراض کے لئے لی تھی:
(۱) انوسٹمنٹ کے لئے ،تاکہ سرپَلس میں اضافہ ہو۔(۲) متوقع نقصانات کی صورت میں قرض ِ حسنہ فراہم کرنے کے لئے ، جیسا کہ ماقبل میں لکھا تھا کہ ’’پریمیم کی مقدار مناسب رکھنے اور خطرات کو پھیلا کر نقصان کی تلافی کو یقینی بنانے کے لئے (جو قرض دینے کی صورت میں ہی ممکن ہے) ر ی انشورنس کو انشورنس کے لئے یا ری تکافل کو تکافل کے لئے جزو لازم سمجھا جاتا ہے اور قانوناً بھی یہ لازم ہے اور اس کے بغیر لائسنس بھی جاری نہیں ہوتا‘‘۔غرضیکہ ! ری تکافل کمپنی کا بظاہر مقصدِ اصلی ممکنہ نقصان میں قرض حسنہ کی فراہمی کی صورت پیدا کرنا ہے۔
اشکال کی صورت یہ ہے کہ جب تکافل کمپنی نے ری تکافل کو ۲۰ ؍فیصد دیا تو یہ