وہاں بھی پہلی قسط کا ایک بڑا حصہ کمپنی کے ایجنٹ کا ہوتا ہے، اس کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ انشورنس میں یہ ظلم ہوتا ہے کہ پہلی قسط پوری کی پوری ایجنٹ کی جیب میں چلی جاتی ہے، لیکن جب اس کا متبادل نظامِ تکافل وجود میں آیا تو وہاں بھی مختلف فیسوں کے نام سے پہلی قسط کا اکثر حصہ کمپنی کی ملکیت میں چلا جاتاہے،۔
اگر دیکھا جائے تو یہ (تکافل کے پیش کردہ نظریے ’’جس کی تقویت کے لئے قرآنِ پاک، احادیثِ مبارکہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے واقعات پیش کئے جاتے ہیں اور بتلایا جاتا ہے کہ یہ نظام محض ہمدردی اور بھائی چارے اور برادریوں میں قائم کئے جانے والے باہمی امدادی فنڈوں کی بنیاد پر ہے ‘‘کی وجہ سے )پالیسی ہولڈر کے ساتھ زیادتی ہے ، وہ اس طرح کہ اگر کوئی پالیسی ہولڈر پہلی قسط جمع کروانے کے بعد کسی وجہ سے تکافل کمپنی کو چھوڑنا چاہے تو قواعد و ضوابط کے مطابق اُسے صرف وہ رقم ملتی ہے جو اُس کی انوسٹمنٹ کھاتے میں جمع ہو،یا پھر اس رقم سے کی گئی سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والا نفع۔وہ اِس طرح کہ تکافل کرواتے ہی مثلاً: ۸۵؍ فیصد رقم تو ایلوکیشن فیس کے نام سے پہلے ہی الگ کر لی گئی ، باقی رقم میں سے کچھ مقدار وقف فنڈ میں ڈال دی گئی ،چنانچہ یہ دونوں رقمیں تو واپس نہیں ہوسکتیں ، ایک تو کمپنی کا حق تھی اِس لئے ، اور دوسری اِس کی ملکیت سے نکلنے اور وقف کی ملکیت میں چلی جانے کی وجہ سے،اور بقیہ رقم میں سے بھی ہر ماہ ڈیڑھ فیصد ایڈمن فیس کاٹی جاتی ہے، لہذا یہ’’ واپس ہونے والا پالیسی ہولڈر‘‘ جتنی دیر کرتا جائے گا اتنی رقم اس کی کم ہوتی جائے گی ، تو پالیسی ہو لڈر کے ہاتھ کیا آئیگا؟سوائے اس بات کے وہ اس جگہ سے بھی یہ ذہن لے کر نکلے گا کہ انشورنس کے متبادل کے طور پر پیش کیا جانے والا نظام(تکافل) بھی انشورنس ہی کی طرح لوگوں کی جیبیں خالی کرنے والا نام نہاد اسلامی نظام ہے۔