(کمپنیوں ) سے انشورنس کی سہولت لینا جائز نہیں ، بلکہ کسی ری تکافل کمپنی کو اختیار کریں ، گو اس کی تعداد فی الحال کم ہے ،نیز ! ری(تکافل) کمپنیاں زیادہ تر تبرع پر مبنی(Based) ہیں ، وقف پر نہیں ، تاہم فی الحال بدرجہ مجبوری اس کو برداشت کیا جاسکتا ہے ، کیونکہ تبرع بیسڈ تکافل کے جواز کی بڑی تعداد علماء میں سے قائل ہے اور بہت سے اسلامی ممالک میں یہی ماڈل زیرِ عمل ہے ‘‘۔(ص:۱۲۰)
ایک اورجگہ ،سوال کے جواب کو ملاحظہ فرمائیں :
’’سوال: ہمارے ہاں زیادہ تر تکافل کمپنیاں وقف ماڈل ہیں ، ری تکافل کمپنیاں مثلاً: سوس ری وغیرہ فی الحال اس بنیاد پر قائم نہیں ، تو کیا ان ری تکافل کمپنیوں کی پالیسی لینے کی گنجائش ہے؟
جواب:…جی ہاں ،کیونکہ قانونی مجبوری ہے‘‘۔ (ص:۱۲۱)
لیجئے ! اب خودہی دیکھ لیا جائے، مزید کچھ تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی،کہ جس چیز کومجوزین حضرات کل تک خود غلط کہہ رہے تھے اور اس کی شرعی خرابیاں گنواتے ہوئے اس کو مسترد کر چکے تھے اور باقاعدہ اس کے مقابل نیا نظام ترویج دے رہے تھے ، جب اس میں خود ملوث ہونا پڑ رہا ہے تو اسے مجبوری کا نام دے کرجائز قرار دے دیا، ٹھیک ہے کہ بہت سارے ممالک میں اس بنیاد پر ’’تکافل‘‘ یا ’’ری تکافل ‘‘کمپنیاں موجود ہیں لیکن مجوزین کے نزدیک تو وہ پوری بنیاد شرعی تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتی نا ! تو پھر مجبوری کے نام سے ان کے ساتھ معاملہ کرنے کی اجازت دے دینے سے اُن مفاسد سے بچاؤ ہو