معاوضہ بن جائے گا اور غرر و ربا جیسے مفاسد اس میں مؤثر ہوجائیں گے۔
(۲) چندہ کی رقم چندہ دہندہ کی ملکیت سے نہ نکلنے کی وجہ سے شرعی ضابطہ کے مطابق اس کی زکاۃ چندہ دہندہ پر واجب ہونی چاہیئے۔
(۳) چندہ دہندہ کے انتقال کی صورت میں دیا ہوا پیسہ اس کے ترکہ میں شمار ہونا چاہیئے۔
(۴) نیز! جب پول کا احسان چندہ دہندہ کے احسان سے مشروط ہوگا اور دونوں پر اپنا اپنا احسان لازم ہے تو یہ ’’جبر فی التبرع‘‘ہو گیا، یعنی زبردستی کا احسان ، جس کا باطل ہونا ظاہر ہے، چنانچہ زیادہ تر لوگوں کو تکافل کے بارے میں یہی اشکال رہتا ہے۔اس کے علاوہ بھی تبرع کی صورت میں پیچیدگیاں (Complications)ہیں ، جن کا جواب اور حل کوئی آسان کام نہیں ‘‘۔(تکافل کی شرعی حیثیت، ص: ۸۶،ادارۃ المعارف)۔
مذکورہ خرابیوں کی وجہ سے (اور بقول انہی کے اور بہت سی خرابیوں کی وجہ سے) وقف کی بنیادوں پر تکافل کا نظام وضع کیا گیا اور ان (تبرع کی)بنیادوں پر چلنے والے تکافل میں شرکت کو ناجائز کہا گیا، لیکن جب مجوزین حضرات خود پھنسے وہا ں ان حضرات نے مجبوری اور ضرورت کے نام سے خود اسی نظام کو اختیار کر لیا،چنانچہ ’’تکافل کی شرعی حیثیت ‘‘ میں لکھا ہے کہ:
’’خلاصہ یہ کہ تکافل کمپنیوں کے لئے مروّجہ ری انشورنس