طور پر مختلف برادریوں میں اس طرح فنڈز بنائے جاتے ہیں ،لہذا اس کو عقد ِمعاوضہ کہنا درست نہیں ‘‘۔(ص:۱۵۰)
حالانکہ تکافل اور برادریوں کے امدادی فنڈوں کے درمیان کھلا تضاد اور فرق ہے، ملاحظہ ہو:
(1) برادریوں کے امدادی فنڈسے استفادہ کرنے والے محض اغنیاء نہیں ہوتے بلکہ حادثات کا شکار ہونیوالے برادریوں کے تمام افراد اِن فنڈوں سے مستفید ہو سکتے ہیں ۔
(2) برادریوں میں مبتلیٰ بہٰ افراد کی امداد ان کے جمع کروائے گئے چندوں کی بنیاد پر نہیں ہوتی کہ جو کم چندہ جمع کرواتا ہے اُس کی کم امداد کی جاتی ہے، اور جو زیادہ چندہ جمع کرواتا ہے تو اسکی زیادہ امداد کی جاتی ہے جیسا کہ تکافل میں ہوتا ہے۔
(3) برادریوں میں قائم کئے جانے والے فنڈز کا قیام باہمی اخوت کی بنیاد پر ہوتا ہے ، فنڈز سنبھالنے والوں کا اس سے کوئی ذاتی مفادوابستہ نہیں ہوتا ،جبکہ تکافل پالیسیاں تو وجود میں آتی ہی اسی لئے ہیں کہ ذاتی مقاصد حاصل کیے جا سکیں ،جیسا کہ تکافل کمپنیوں کے متولی اور ڈائریکٹرز پہلے فنڈبناتے ہیں پھر پالیسیاں شروع کرتے ہیں چنانچہ ڈائریکٹرزمضارب بن کر یا وکیل بن کرباقاعدہ نفع کماتے ہیں ۔
دوسری بات: برادریوں کے فنڈز کاجواز بھی بعض شرائط کے ساتھ مشروط ہے، اگر وہ نہ پائی جائیں تو وہ بھی جائز نہ ہو گا، چنانچہ ایک امرِ منصوص علیہ سے محض قدرے تشبیہ کی وجہ سے دوسرے کو بالکلیہ جائز قرار دے دیاجائے۔
(4) برادریوں کے امدادی فنڈمیں تمام ارکان باہمی امداد اور ایک دوسرے کی بھلائی و خیر خواہی کو مدِّ نظر رکھ کے چندہ جمع کرواتے ہیں (نتیجۃً! یہ فنڈز صرف حادثات کے شکار افراد میں تقسیم ہوتے ہیں ، جس کی وجہ سے نہ حقیقۃً اور نہ ہی خارج میں عقدِ معاوضہ کی شکل وجود میں آتی ہے اور نہ ہی چندہ دیتے وقت چندہ دینے والوں کو اس کا خیال آتا ہے)