نہیں کی جا سکے گی‘‘۔
جیسا کہ ’’تکافل کی شرعی حیثیت ‘‘ میں لکھا ہے کہ:
’’اگر فنڈ تحلیل ہو گیا تو تمام کلیمز(Claims)ادر
(Pay)کرنے کے بعد سرپلَس، چندے اور واجب الوصول رقوم خیراتی مقاصد میں خرچ ہوں گی ، جس میں شریعہ بورڈ سے مشاورت ضروری ہو گی، جہاں تک وقف رقم ہے ، تو وہ ایسے مقصد میں دی جائے گی، جو ختم ہونے والا نہ ہو، شئیر ہولڈرزاِن رقوم میں سے کسی رقم کے مستحق نہیں ہوں گے، تحلیل کے وقت آپریٹر متعلقہ اخراجات وصول کر سکتا ہے ‘‘۔(تکافل کی شرعی حیثیت، ص:۱۱۰، ادارۃ المعارف،کراچی)
تو وہ ہر گز پالیسی لینے کے لئے تیار نہ ہو گا۔(تو اُس وقت اچھی طرح اندازہ ہو جائے گا کہ پالیسی ہولڈر وقف وغیرہ کو فنڈ دینے سے کوئی غرض نہیں رکھتا، اُس کی تو اپنی اغراض ہیں )۔
بلکہ اِس سے بھی آگے بڑھ کر اُس کو تو یقین دہانی کروائی جاتی ہے کہ وہ اپنے نقصان کی تلافی کے لئے باقاعدہ قانونی حق رکھتا ہے (چاہے مجوزین حضرات اس کی کوئی تأویل کرتے رہیں ) اور اس کے لئے (کہ ہر حال میں پالیسی ہولڈر کے نقصان کی تلافی کرنی ہے) کمپنی نے اپنے وضع کردہ نظام میں باقاعدہ یہ شق رکھی ہے کہ ’’وقف فنڈ خالی ہونے کی صورت میں کمپنی اِس فنڈ کو قرضِ حسنہ دے گی‘‘(تاکہ پالیسی ہولڈرز کے نقصان کی تلافی ہر حال میں کی جاسکے)۔جیسا کہ ’’تکافل کی شرعی حیثیت ‘‘میں آپریٹر کی ذمہ داریاں (Obligations) کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ: