مستقل ہے ‘‘۔(تکافل انشورنس کا اسلامی طریقہ،ص:۱۴۹،ادارہ اسلامیات،لاہور)
یعنی! وہ (پالیسی ہولڈر)یہ نہیں کہتا کہ چونکہ میں نے وقف کو اتنا چندہ دیا ہے ، اِس لئے میں اِن فوائد کا حق رکھتا ہوں بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ اِن قواعد کی بنیاد پر مجھے یہ فوائد حاصل ہونے چاہئیں ، یہ قانونی حق اِس کو عقد ِ معاوضہ میں داخل نہیں کرتا……مگر سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ پالیسی ہولڈرز کو قواعد و ضوابط کے تحت دعوی کرنے کا حق کس نے دیا؟! اُسے وقف فنڈ سے اپنے نقصان کی تلافی کروانے کا قانونی حق بھی تو تکافل فنڈکو دی جانے والی رقم کی وجہ سے ہی حاصل ہواہے، اب مجوزین حضرات اس قانون کی وجہ سے ملنے والی رقم کو قواعد و ضوابط کا نام دیں یا پریمیم کی کمی بیشی کا، اِ س سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ج : نیز! تکافل کو عقد ِ تبرع قرار دے کرغرر کی نفی کی گئی ہے، چنانچہ ! لکھا ہے کہ:
’’لیکن اسلامی تکافل کے اندر اس غیر یقینی کیفیت سے عقد ناجائز نہیں ہوتا کیونکہ اِس کی بنیاد ’’عقد تبرع‘‘ پر ہے،اور تبرعات کے اندر غیر یقینی کیفیت (Uncertainty) کا پایا جانا ممنوع نہیں جبکہ عقد معاوضہ کے اندر ممنوع ہے‘‘۔(تکافل؛ انشورنس کا اسلامی طریقہ،ص:۱۲۲، ادارہ اسلامیات،لاہور)
تو اِس جگہ سوال یہ ہے کہ شخصِ قانونی (وقف فنڈ)کو چندہ دینے والاکبھی تبرع کرنے کے لئے چندہ نہیں دیتا،کمپنی والے چاہے اِس کو جو کچھ بھی کہتے رہیں ،اُن کی بَلا سے!اُسے تو اپنے نقصان کی تلافی اور نفع سے غرض ہوتی ہے،چاہے کسی طریقے سے ہو۔بلکہ اگر اسے یہ بات بتا دی جائے کہ ’’عین ممکن ہے کہ وقف فنڈ چندہ نہ ہونے کی صورت میں تلافی نہیں کر سکے گا،یا کسی وقت فنڈ تحلیل ہو گیا تو بھی اس کے نقصان کی تلافی