لیتے ہوئے روایتی انشورنس کے تالاب سے ہی پاکیزگی حاصل کرنے میں مصروف ہیں ۔ اسے جو اچھائی اور کامیابی جانتا ہے، اس کی اپنی دنیا و آخرت!!! ہم اِسے روایتی انشورنس سے الگ نہیں سمجھتے اور مسلمانوں کو اس سے بچنے کا مشورہ دیتے ہیں ۔
ہم پورے وثوق سے یہ بھی عرض کرتے ہیں کہ مروجہ تکافل سے بالواسطہ یا بلا واسطہ استفادی رشتہ استوار کیے ہوئے چند حضرات کے بجز دیگر اہلِ علم مروجہ تکافل کو روایتی انشورنس کاہی چربہ قرار دیتے ہیں اور مبتلیٰ بہٖ عوام بھی کھلی آنکھوں سے یہی دیکھ رہے ہیں ، مگر ہمارے بعض حضرات کی آنکھیں یہاں چندھیائی ہوئی ہیں ۔
مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض لوگ ’’مروجہ تکافل‘‘کا جواز پیش کرتے ہوئے بے دریغ بعض اکابر ِ رفتگان کا نام بھی استعمال کررہے ہیں ، حالانکہ ان اکابر نے انشورنس کے متبادل کے طور پر جو لکھا تھا، ان کا مؤقف الحمد للہ مطبوعہ شکلوں میں موجود ہے۔ موجودہ اکابر اہلِ علم سے درخواست ہے کہ وہ اس کاتقابلی مطالعہ فرما کر ہم جیسے طالب علموں کو غلط بیانی اور غلط فہمی سے بچانے کے لیے یہ راہنمائی فرمائیں کہ ان اکابر کے مؤقف میں اور ہمارے مجوزین کی رائے گرامی میں کتنا قرب یا بُعد ہے؟ یہ ان کا احسان ِ عظیم ہو گا۔
بہر حال اللہ تعالیٰ جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی،کراچی کے استاذ و رفیق ِ دارالتصنیف حضرت مفتی محمد راشد ڈَسکوی صاحب حفظہ اللہ کو جزائے خیر عطا فرمائے، جنہوں نے شیخ المشائخ حضرت مولانا سلیم اللہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی سرپرستی ونگرانی میں اس موضوع پر قلم اُٹھایااور اس موضوع کا فقہی مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ بعض معتمد اور جامع تحریروں کو بھی اس مجموعہ کا حصہ بنایا، جن میں ہمارے دارالافتاء (بنوری ٹاؤن) کا ایک مطبوعہ فتویٰ بھی شامل ہے۔
یہ مجموعہ اہلِ علم کے لیے دعوتِ فکر بھی ہے، وہ اس موضوع پر سنجیدگی سے غور