مگر پچھلے کچھ عرصہ سے بعض لوگ انشورنس کے متبادل کے طور پر ’’تکافل‘‘ کے نام سے ایک کفالتی ادارہ متعارف کروا رہے ہیں ، جسے انشورنس کی افادیت کاحامل اور اس کی خرابیوں سے پاک قرار دے رہے ہیں ، اس کے لیے انہوں نے فقہی بنیادیں تلاشنے کادعویٰ فرما رکھا ہے، ہمیں ان کی نیت اور اَہداف سے بحث نہیں ہے۔
ہمارے پیشِ نظر صرف یہ اَمر ہے کہ فقہ سے انشورنس کے متبادل ڈھونڈ نکالنے کا دعویٰ بظاہر بے جا ہے، کیوں کہ ’’تکافل‘‘ کے مروجہ و مبینہ طریقۂ کار، اغراض و مقاصد سے صاف نظر آتا ہے کہ مجوزین حضرات نے روایتی انشورنس کے سود اور جوے سے بھرے ہوئے تالاب کا نام حوض (Pool) رکھا، پھر اُسے مغربی سرمایہ دارانہ فکر کے فضلاتی جرثوموں سے جنم لینے والا ’’شخصِ معنوی‘‘ مان لیا اور اس شخصِ معنوی کے بارے میں حقیقی انسان جیسے تصرفات و اختیارات کا اہل ہونے کا اعتقاد قائم کر لیا ہے، یہ شخصِ معنوی (پول)، تکافل کے حصہ دار یعنی پریمیم ہولڈر (Premium holder) کی رقم بطورِ وقف کے قبضہ کر لیتا ہے اور پریمیم ہولڈر (Premium holder) کے نقصان کی تلافی کی ذمہ داری اپنے کھاتے میں لے لیتا ہے، اس نقد رقم کے وقف ہونے اور وقف کے تقاضے پورا ہونے سے متعلق فقہی اشکالات سے مَفر کے لیے کبھی اسے ’’تبرع‘‘ کہا جاتا ہے، جب تبرع قرار دینا قابلِ اشکال ٹھہرے تو ’’ہبہ بشرط العوض‘‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔
ہمارے خیال میں یہ پس و پیش فقہ اسلامی کی کوئی ایسی قابلِ ذکر خدمت نہیں ہے،جسے فقۂ اسلامی کی تطبیقِ جدید کہا جا سکے، بلکہ اس کے برعکس یوں کہنا زیادہ آسان ہے کہ در حقیقت ’’مروجہ تکافل‘‘ کے نام سے روایتی انشورنس کو اپنی خصوصیات کے ساتھ اسلامیانے (Islamization) کی کوشش کی گئی ہے، جس کے نتیجہ میں وہ سادہ لوح مسلمان جو انشورنس کے ظاہری لیبل سے بچنے کی کوشش کیا کرتے تھے، اب تکافل کا نام