نبی اکرم ﷺنے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دی تھی کہ ’’اصل کو روکے رکھو اور ثمرہ خرچ کرو‘‘ سونے ، چاندی سے تو تب ہی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے،جب اس کو بعینہ کسی دوسری چیز کی طرف نکالا جائے ۔ غرض یہ اصل کو روکے رکھو اور ثمرہ خرچ کر و کی صورت نہیں بنتی‘‘۔
حافظ ابن حجرؒنے محدث اسماعیلیؒکے اعتراض کا جو جواب دیا ہے وہ صرف زیور جس کا ذاتی استعمال واضح ہے، پر منطبق ہوتا ہے، درہم و دینار پر نہیں ، اس لیے اس کووقف کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔
٭ موجودہ تکافل کے حامی فتح القدیر کے حوالے سے امام زفرؒ کے شاگرد محمد بن عبداللہ انصاریؒ کے فتویٰ کا ذکر بھی بڑی شدومد سے کرتے ہیں کہ انہوں نے درہم و دینار کے وقف کو جائز قرار دیا ہے، لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ فتویٰ خود تکافل کمپنیوں کے خلاف جاتا ہے، کیوں کہ اس میں یہ الفاظ بھی ہیں :
’’قیل وکیف؟ قال: یدفع الدراھم مضاربۃ ثم یتصدق بھا في الوجہ الذي وقف علیہ‘‘۔
’’کہا گیا کہ یہ کیسے ممکن ہیَ انہوں نے جواب دیاکہ وہ دراہم مضاربہ کی بنیاد پر کاروبار کے لیے دے پھر ان پر صدقہ کرے جن پر وقف کیا گیا ہے‘‘۔
جب کہ تکافل کمپنیوں کے مالکان اپنے قائم کئے ہوئے وقف سے کسی کو بطورِ مضاربہ رقم نہیں دیتے، بلکہ خود ہی کاروبار کرتے ہیں ۔اور اس کی باقاعدہ فیس وصول کرتے ہیں ۔ امام زہریؒ کے اثر میں بھی یہی ہے کہ اس نے دینار غلام تاجر کو دیے تھے، نہ کہ خود ہی تجارت میں لگا کر اس کے عوض فیس لینا شروع کر دی۔