نقصان کا بھی اندیشہ ہے اور ممکن ہے کہ وقف ختم ہی ہو جائے۔ اس لیے یہ کہنا کہ وقف کی ہوئی رقم سے کاروبار کر کے اس کا نفع خرچ کیا جائے گا۔آپ ﷺ کے اس ارشاد کہ ’’اصل روک کے رکھو اور اس کی پیداوار خرچ کرو‘‘ کے خلاف ہے۔
جو حضرات نقد کے وقف کو ناجائز کہتے ہیں ، ان کا مؤقف درست ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قائلین نے اپنی تائید میں جو دلائل ذکر کیے ہیں ، وہ ثبوت کے لیے ناکافی ہیں ،مثلاً: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے واقعے سے ایسی منقولی اشیاء کا وقف تو ثابت ہوتا ہے، جن کا اپنا ذاتی استعمال ہو، مثلاً: گھوڑا جس کا اپنا ذاتی استعمال ہے اور وہ ہے سواری، لیکن نقد جس کا اپنا کوئی ذاتی استعمال نہیں ، تو اس کا وقف ثابت نہیں ہوتا۔ امام بخاریؒ نے نقد کو گھوڑے پر قیاس کیا ہے، جو درست نہیں ، کیوں کہ ان دونوں میں واضح فرق ہے۔
مزید برآں !یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ بعض اہلِ علم کی رائے میں یہ وقف تھا ہی نہیں ،بلکہ صدقہ تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ تو فرما یا کہ اپنا صدقہ مت خریدو مگر بیچنے والے پر پابندی نہیں لگائی۔ اور نہ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کوئی اعتراض کیا۔ اگر یہ وقف ہوتا تو نبی اکرم ﷺ اس کو بھی منع فرما دیتے، کیوں کہ وقف کو فروخت کرنا جائز نہیں ۔
٭ امام زہریؒ کا اثر بھی دلیل نہیں بن سکتا، کیوں کہ یہ وقف کے بارے میں نہیں بلکہ عام صدقہ کے متعلق ہے۔ اس کا قرینہ یہ ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ شخص اس کے نفع سے خود بھی کھا سکتا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا :نہیں ۔اگر یہ وقف ہوتا تو یہ پابندی نہ لگاتے، کیوں کہ وقف کنندہ کو شرعاً اپنے وقف سے فائدہ اٹھانے کی اجازت ہے۔
محدث اسماعیلیؒ فرماتے ہیں :
’’زہریؒ کا اثر اس وقف کے خلاف ہے، جس کی اجازت