اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ جو حضرات نقد کے وقف کے قائل ہیں ان کا نقطہ نظر کمزور ہے۔ لہذا تکافل کمپنیوں کی بنیاد ہی ایسے مؤقف پر قائم ہے جو دلائل کی قوت سے محروم ہے۔
٭یہاں یہ وضاحت کر دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ تکافل کے حامیوں کی رائے میں پالیسی ہولڈرزکی اقساط سے جو حصہ وقف پول میں جاتاہے،وہ وقف کی بجائے وقف کی ملکیت ہوتا ہے، جو وقف کے مصالح کے علاوہ ان لوگوں پر خرچ ہو گا، جن کے لیے وقف قائم کیا گیا ہو، جیسا کہ ہم پیچھے بیان کر آئے ہیں ۔
سوڈان کے معروف عالم پروفیسر صدیق محمد امین ضریر کے نزدیک اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ چناں چہ وہ لکھتے ہیں :
’’ وما لم یأت الباحث بدلیل علیٰ أن ما یتبرع للوقف یصرف للموقوف علیہم فإن تأصیل التأمین التکافلي علیٰ أساس الوقف ینھار من أساسہ‘‘۔ (تعقیب عن بحث تأصیل التأمین التکافلي علیٰ أساس الوقف والحاجۃ الداعیۃ إلیہ)
’’جب تک محقق (مولانا تقی عثمانی )اس بات کی دلیل پیش نہیں کرتے کہ جو عطیہ وقف کو دیا جاتا ہے، وہ ان لوگوں پر ہی خرچ کیا جا سکتا ہے، جن پر وقف کیا گیا ہو، تو وقف کی بنیاد پر تکافلی انشورنس کا اُصول اپنی بنیاد سے ہی اکھڑ جاتا ہے‘‘۔
٭ یہاں اس امر کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ دنیا میں مروجہ تکافل کی سب سے پہلی کمپنی سوڈان میں ۱۹۷۹ء میں صدیق محمد امین کی زیرِ نگرانی قائم ہوئی تھی، لیکن اس کی