’’خلاصہ یہ کہ جس چیز کو رکھ کر اس سے فائدہ اٹھانا ممکن نہ ہو ، جیسے درہم و دینار، کھانا، مشروب، شمع اور جیسی دوسری اشیاء وغیرہ توعام فقہاء اور اہلِ علم کے نزدیک ان کا وقف درست نہیں ۔ البتہ امام مالک ؒ اور امام اوزاعی ؒ سے کھانے کے وقف کے متعلق مروی ہے، کہ یہ جائزہے…اس بات کو امام مالک کے شاگردوں نے بیان نہیں کیا … لیکن یہ موقف درست نہیں ، کیوں کہ وقف کا مطلب ہے: ’’اصل کو باقی رکھنا اور اس کے فائدہ کو اللہ کی راہ میں خیرات کرنا‘‘ اور جس کو تلف کیے بغیر اس سے فائدہ اٹھانا ممکن نہ ہو، اس میں وقف صحیح نہیں ہوتا‘‘۔
مزید لکھتے ہیں :
’’وجملۃ ذٰلک أن الذي یجوز وقفہ ما جاز بیعہ، وجاز الانتفاع بہ مع بقاء عینہ، وکان أصلا یبقیٰ بقائً متصلاً کالعقار والحیوانات والسلاح والأثاث وأشباہ ذٰلک‘‘۔ (۸؍۲۳۱)
’’وقف اسی کا جائز ہے جس کی بیع درست ہے اور اس کو بعینہ باقی رکھ کر اس سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔اور وہ ایسی چیز ہونہ چاہیے جو متصلاً باقی رہے، جیسے زمین، جانور، اسلحہ، اثاثہ اور اس قسم کی دوسری اشیاء وغیرہ‘‘۔
علماء و فقہاء کا موقف تو اوپر آپ ملاحظہ کر چکے ہیں ، البتہ بعض اہلِ علم وہ بھی ہیں جو رقم کو بھی وقف کرنا جائز سمجھتے ہیں ۔ ان میں امام بخاریؒ بھی شامل ہیں ، چناں چہ ! اُنہوں نے اس کے