اگرچہ قرآن و حدیث میں لفظ تکافل کا ذکر نہیں ہوا مگر ایک دوسرے کی ضرورتوں کا خیال رکھنا،خیرخواہی اور تعاون کرنادین کا اہم مطالبہ ہے۔
٭ سید قطب شہیدؒ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’بلا شبہ اجتماعی تکافل ہی اسلامی معاشرہ کی بنیاد ہے اور مسلمانوں کی جماعت پابند ہے کہ وہ اپنے کمزوروں کے مفادات کا خیال رکھے‘‘۔ (فی ظلال القرآن: ۱؍۲۱۲)
٭ دوسری جگہ لکھتے ہیں :
’’اسلام کا مکمل نظام تکافل کی بنیاد پر قائم ہے‘‘۔ (۳؍۴۳۳)
٭ ذیل میں اس موضوع کی بعض آیات اور احادیثِ نبویہ ﷺ ملاحظہ ہوں :
{والمؤمنون والمؤمنات بعضھم اولیاء بعضٍ یامرون بالمعروف وینھون عن المنکر ویقیمون الصلاۃ ویؤتون الزکاۃ ویطیعون اللّٰہ ورسولہ اولٰئک سیرحمھم اللّٰہ ان اللّٰہ عزیز حکیم} (التوبۃ: ۷۱)
’’مؤمن مرد اورمؤمنہ عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ، وہ نیکی کا حکم دیتے اور بُرے کام سے روکتے ہیں اور نمازقائم کرتے اور زکاۃ دیتے ہیں اور اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ ضرور رحم فرمائے۔بے شک اللہ تعالیٰ نہایت غالب خوب حکمت والا ہے‘‘۔
یعنی: اہلِ ایمان کا شعار یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے معاون اور مددگار ہیں ۔
٭تکافل کی روح بھی یہی ہے۔ علامہ محمد رشید رضاؒ لکھتے ہیں کہ