مثلاً:قرآن حکیم میں حضرت مریم علیہا السلام کی کفالت اور تربیت کے حوالے سے ایک جگہ
{فتقبلھا ربھا بقبولٍ حسنٍ وانبتھا نباتاً حسناً وکفلھا زکریا} (آل عمران:۳۷)
’’پھر اس کے رب نے اسے قبول کیا ، قبول کرنا اچھا اور زکریا کو اس کا کفیل بنایا‘‘۔
اور دوسری جگہ فرمایا:
{اذ یلقون اقلابھم ایھم یکفل مریم} (آل عمران: ۴۴)
’’جب وہ اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ ان میں سے مریم کی کفالت کرے‘‘۔
یعنی پہلی آیت میں ’’لفظ کَفَّل‘‘ کفیل بنایا، اور دوسری میں ’’یَکْفُل‘‘ کفالت کرنے کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جب دو آدمی دیوار پھلانگ کر حضرت داؤد علیہ السلام کے کمرے میں داخل ہوئے توان میں سے ایک نے کہا:
{ان ھٰذا اخي لہ تسع وتسعون نعجۃ ولي نعجۃ واحدۃ فقال اکفلنیھا وعزني في الخطاب} (ص: ۲۳)
’’بے شک یہ میرا بھائی ہے، اس کے پاس ننانوے دُنبے ہیں اور میرے پاس ایک ہی دُنبہ ہے تو یہ کہتا ہے: وہ بھی میرے سپرد کر دے اور گفتگو میں مجھ پر غالب آجاتا ہے‘‘۔
یہاں ’’ اَکْفِل ‘‘ سپرد کر دے کا لفظ آیا ہے۔
اسی طرح حدیث شریف میں بھی اس مادہ کے مختلف الفاظ آئے ہیں ۔ مثلاً: نبی اکرم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: