قید مذکور نہیں ، بلکہ متضرر کوئی بھی ہو سکتا ہے، خواہ غنی ہو یا فقیر۔
(۴) اس کا جواب تفصیل کے ساتھ ہمارے جواب میں ازالہ مغالطہ کے تحت آچکا ہے کہ یہاں ممبر کو فنڈ سے جو کچھ مل رہا ہے، وہ شرط ِ واقف کی وجہ سے مل رہا ہے، جس کا چندے سے کوئی تعلق نہیں ۔
(۵) جب ازالہ مغالطہ کے تحت ہم یہ بات ثابت کر چکے ہیں کہ یہاں عقد، معاوضہ نہیں پایا جاتا، تو اس کی وجہ سے آپ کی کتاب کے ص:۱۱۸ تا ۱۲۳ کے تمام اشکالات باقی نہیں رہتے، لہٰذا ہر جزوی اشکال کا الگ الگ جواب دینے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔
(۶) آپ نے اپنی کتاب کے ص: ۱۲۶ پر ’’عملی خرابیاں ‘‘ کے عنوان کے تحت نمبر:۱ میں یہی خرابی لکھی ہے کہ ’’کمپنی خود ہی رب المال اور خود ہی مضارب بنتی ہے‘‘ لہٰذا ہمارے جواب میں آپ کی طرف غلط نسبت نہیں کی گئی۔
اس خرابی کے جواب میں ہم نے لکھا تھا کہ یہاں ایک ہی شخص مضارب اور رب المال نہیں بن رہا، بلکہ وقف جو شخص قانونی ہے وہ رب المال ہے اور کمپنی جو اس کی متولی ہے وہ مضارب ہے، لہٰذا رب المال اور مضارب کا ایک ہونا لازم نہ آیا۔
تاہم یہ بات قابلِ غور رہتی ہے کہ متولی خود مضارب بن سکتا ہے تو اس کے بارے میں ہم نے کہا تھا کہ اگرچہ فقہاء کرام کے کلام میں اس کا جواز منقول نہیں لیکن منع بھی تو منقول نہیں ، اور چوں کہ فقہاء کے کلام میں اس بارے میں کوئی صریح عبارت موجود نہیں اس لیے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم نے اس کے جواز پر جزم نہیں فرمایا، بلکہ اسے اجارہ پر قیاس کیا۔