شرکتِ غیرے اپنے وقف سے خود نفع اٹھا سکتا ہے‘‘ یہ دونوں ہی اپنی جگہ مُسَلَّم ہیں ، لیکن ان کو جوڑنا درست نہیں ‘‘۔
ان دونوں کو جوڑنے کے عدمِ جواز کی جو وجہ آپ نے اگلے صفحات میں بیان فرمائی ہے، اس کا حاصل یہ معلوم ہوتا ہے کہ نقود میں وقف علی النفس استحساناًہو گا یا قیاساً ہو گا، استحسان کی یہاں کوئی دلیل نہیں اور قیاس میں فارق موجود ہے، وہ ہے دوام وعدمِ دوام۔
اس سے معلوم ہوا کہ آپ مذکورہ دونوں صورتوں کے جمع ہونے کو ناجائز سمجھتے ہیں ، البتہ اس ناجائز ہونے کی وجہ تلفیق کے بجائے درج بالا قرار دیتے ہیں ، لیکن چوں کہ ہم نے جواب میں تلفیق کو بنیاد ہی نہیں بنایا اور نہ ہی اس کا کوئی جواب دیا ہے بلکہ حقیقی صورت حال کی وضاحت کر کے حکم بیان کیا ہے۔اس لیے آپ کی طرف تلفیق کی غلط نسبت ہونے کے بجائے نفسِ جواب میں کوئی فرق نہیں آتا۔
(۲) ہم نے ازالہ ِ مغالطہ کے عنوان سے جو بحث کی ہے ، اس کا حاصل یہ ہے کہ مروج تکافلی نظام میں وقف علی النفس کی شرط ہے ہی نہیں (خواہ شیئر ہولڈرز کی طرف سے ہو یا چندہ دہندگان کی طرف سے ) جب کہ آپ کی عبارات دیکھ کے ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہاں ’’وقف علی النفس ‘‘ کا وجود تسلیم کیا ہے (خواہ شیئر ہولڈرز کی طرف سے ہو یا چندہ دہندگان کی طرف سے )تبھی تو آپ اس کو تکافل کی ’’پہلی باطل بنیاد ‘‘ قرار دیتے ہیں ۔
(۳) آپ نے ’’وقف النقود ‘‘ میں ’’علی الأغنیاء المتضررین‘‘ کو بھی ناجائز قرار دیا ، لیکن اس کی کوئی دلیل ہمیں نہیں ملی، جب کہ اس کے ناجائز ہونے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔
نیز! یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ تکافلی نظام میں وقف کی شرائط میں اغنیاء کی کوئی