مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم نے درج ذیل الفاظ میں اس کی صراحت فرمائی ہے:
’’ما یتبرع بہٖ المشترکون یخرج من ملکہم ویدخل في الصندوق الوقفي، وبما أنہ لیس وقفا، وإنما ھو مملوک للوقف‘‘۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چندہ دہِندگان کو نقصان کی صورت میں مذکورہ فنڈ سے فوائد کس بنیاد پر ملتے ہیں ؟ تو اس کے بارے میں عرض یہ ہے کہ شروع میں واقفینِ فنڈ نے فنڈ کو مطلق نہیں کیا ہے، بلکہ ان کے نزدیک اس وقف سے صرف وہی لوگ منتفع ہوں گے، جنہوں نے اس فنڈ کو چندہ دے کر اس کی رکنیت حاصل کی ہو، اس کامطلب یہ ہوا کہ جو اس وقف فنڈ کو چندہ دے کر اس کا رکن بنے گا، وہ گویا کہ موقوف علیہم ہو جائے گا، اب اس کو واقفین کی شرط کے مطابق فنڈسے فوائدِ مقررہ ملیں گے، لأن شرط الواقف کنص الشارع۔
جس کی وضاحت حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم نے درج ذیل الفاظ میں فرمائی ہے:
’’ ما یحصل علیہ المشترکون من التعویضات لیس عوضاً عن ما تبرعوا بہ، وإنما ھو عطاء مستقل من صندوق الوقف لدخولھم في جملۃ الموقوف علیہم حسب شرائط الواقف‘‘۔
اس تفصیل سے درج ذیل باتیں واضح ہو گئیں :
٭ شریکِ فنڈ کو فوائد شریک کی کسی شرط کی وجہ سے نہیں مل رہے ہیں ، بلکہ وہ فنڈ کو چندہ دے کر فنڈ کا رکن بن گیا، اب اس کو فوائد واقفین کی شرط کی وجہ سے منجملہ موقوف علیہم میں شامل ہو کر مل رہے ہیں ، لہٰذا اس کا ’’عطائِ مستقل‘‘ ہونا بھی واضح ہو گیا۔