کرنے کی ضرورت ہی نہیں ، بلکہ اصل جو مغالطہ ہوا ہے، وہ سمجھنا کافی ہے، جس کی تفصیل ذیل میں دی جا رہی ہے:
’’تکافل علی اساس الوقف ‘‘میں جو مغالطہ لگا ہے وہ یہ ہے کہ:
نظامِ تکافل میں شرکاء فنڈ کو واقفین سمجھا گیا ہے، اور ان کے چندوں کو وقف سمجھا گیا ہے، اور یہ سمجھا گیا ہے کہ پالیسی ہولڈرز چندہ دیتے وقت انتفاع نفس کی شرط لگاتے ہیں ، جس کا مطلب یہ لیا گیا ہے کہ یہ وقف علی النفس ہے ، جس پر یہ کہا گیا کہ:
’’وقف علی النفس کے قائل امام ابو یوسفؒ ہیں ، جو دراہم کے وقف کے قائل نہیں ، جب کہ دراہم کے وقف کے قائل امام زفرؒ ہیں ، جو وقف علی الفس کے قائل نہیں ؛ لہٰذا دراہم کا وقف ایسا حکم ہوا جو دو قولوں کی تلفیق سے حاصل ہوا‘‘
حالاں کہ یہ محض مغالطہ ہے، یہاں دو چیزیں الگ الگ ہیں :
٭ فنڈ ٭ چندہ
شروع میں شیئر ہولڈرز نے کچھ رقم وقف کر کے ایک فنڈ قائم کیا، اس مرحلہ پر یہ وقف الدراہم یا وقف النقود ہے، اور صرف یہی وقف ہے، اس میں واقفین نہ وقف علی النفس کی کوئی شرط لگاتے ہیں اور نہ ہی انتفاع کی کوئی شرط لگاتے ہیں ، بلکہ وہ وقف کر کے اس فنڈ کے انتفاع سے فارغ ہو گئے۔ اب ان کو اگر نفع ملتا ہے تو وہ صرف اُجرتِ وکالہ یا مضإربہ کی بنیاد پر ملتا ہے، وقف کی وجہ سے ان کو اس وقف فنڈ سے کوئی نفع نہیں ملتا۔ لہٰذا اس مرحلہ پر وقف الدراہم علی النفس کی بحث بے جا ہے۔
جہاں تک ’’چندہ کا تعلق ہے، تو وہ وقف ہے ہی نہیں ، بلکہ وہ مملوکِ وقف ہے، جس میں ’’علی الفس ‘‘کی کوئی بحث نہیں آتی، کیوں کہ یہ وقف ہی نہیں ، جیسا کہ حضرت