٭ یہ چندہ وقف نہیں ، لہٰذا اس میں وقف النقود اور علی النفس اور دونوں کو ملانے سے لزومِ تلفیق کی بحث ِ طویل (ج ومذکورہ رسالے میں ہے) بھی سامنے نہیں آئے گی، اور جو وقف ہے، وہ اصل فنڈ ہے، اس میں علی النفس کی کوئی شرط ہی نہیں ۔
ذکر کردہ اشکال کی بنیاد پر موجودہ تکافلی نظام کو اس وقت ناجائز کہا جا سکتا ہے، جب اصل واقفین وقف کرتے وقت ’’وقف علی النفس ‘‘ کی شرط لگاتے، جب کہ موجودہ صورتِ حال اس سے بالکل مختلف ہے۔ اور اگر وہ وقف کرتے وقت ’’وقف علی النفس‘‘ کے بجائے یہ شرط لگاتے کہ وقف کی وجہ سے وہ خود بھی دوسروں کے ساتھ نفع اٹھائیں گے، تو اس صورت کے جواز کے آپ بھی قائل ہیں ، لیکن موجودہ صورت میں تو یہ بھی نہیں ہے، اس لیے کہ موجودہ صورت میں واقفین وقف کرنے کی وجہ سے وقف سے براہِ راست کوئی نفع نہیں اٹھاتے، بلکہ ان کو اگر کوئی نفع ملتا ہے تو وہ صرف اجرتِ وکالہ یا مضاربہ کی بنیاد پر ملت ہے، وقف کی وجہ سے ان کو اس وقف سے کچھ نہیں ملتا۔ بلکہ اس کی ابتداء متضررین کے لیے اور انتہاء قربت کے لیے ہے، جس کی وضاحت حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم نے اس طرح فرمائی ہے:
’’تنشیٔ شرکۃ التأمین الإسلامي صندوقاً للوقف و تعزل جزء اً معلوماً من رأس مالھا یکون وقفاً علی المتضررین من المشترکین في الصندوق حسب لوائح الصندوق وعلیٰ الجھات الخیریۃ في النھایۃ‘‘۔
اور یہی بات دسمبر ۲۰۰۲ء دارالعلوم میں ہونے والے ملک بھر کے علماء کے اجلاس میں ان الفاظ کے ساتھ طے ہوئی تھی:
’’ اس کے اندر سب سے پہلے شیئر ہولڈرز یعنی: تکافل