عورتوں کی خوبیاں اور خامیاں |
یک ایسی |
|
ابن عساکر میں اِسی روایت کونبی کریمﷺ سے مرفوعاً نقل کیا گیا ہے اور زوجہ کیلئے” أَنْ تَكُونَ زَوْجَتُهُ مُوَافِقَةً“کے الفاظ ذکر کیے گئے ہیں ، جس کا مطلب یہ ہے کہ اُس کی بیوی( مزاج و طبیعت کے) مُوافق ہو۔(ابن عساکر فی تاریخہ:21/120) حضرت علی کرّم اللہ وجہہ نےآیت:”رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ“میں”فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً “کی تفسیر”نیک عورت“سے کی ہے،جبکہ”فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً“سے مراد ”حورِ عین“اور ”عَذَابَ النَّارِ“وہ عورت ہے جو مرد پر مسلط ہوجاتی ہے۔(مرقاۃ المفاتیح:5/1792) حضرت عبد الرحمن ابن ابزیٰفرماتے ہیں:”مَثَلُ الْمَرْأَةِ الصَّالِحَةِ عِنْدَ الرَّجُلِ كَمَثَلِ التَّاجِ الْمُتَخَوَّصِ بِالذَّهَبِ عَلَى رَأْسِ الْمَلِكِ،وَمَثَلُ الْمَرْأَةِ السُّوءِ عِنْدَ الرَّجُلِ الصَّالِحِ مَثَلُ الْحِمْلِ الثَّقِيلِ عَلَى الشَّيْخِ الْكَبِيرِ“اِنسان کے پاس نیک عورت کی مثال اُس سونا جڑے ہوئے تاج کی طرح ہےجوبادشاہ کےسر پر ہو ، اور نیک آدمی کے پاس بُری عورت کی مثال اُس بھاری بھر کم بوجھ کی طرح ہے جو کسی بڑی عمر کے بوڑھے شخص پر لَدا ہو۔(مصنّف ابن ابی شیبہ:17143)تیسری صفت:بااخلاق ہونا : عورت کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ وہ بااخلاق ہو ،اخلاقِ حسنہ کی حامل ہو ، اور یہی عورت کا وہ اصل حسن ہوتا ہے جس سے وہ اپنے شوہر کی نگاہ میں حسین اور محبوب ثابت ہوتی ہے اگرچہ ظاہری رنگت اور حسن اس کا ماند ہی کیوں نہ ہو ، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺنے نکاح کرنے کیلئے مَردوں کو عورتوں کے انتخاب میں ”بااخلاق عورت“ کا معیار دیا ہے کہ وہ نکاح کرتے ہوئے دیندار اور بااخلاق عورت کا انتخاب کریں ،