عورتوں کی خوبیاں اور خامیاں |
یک ایسی |
|
ایک روایت میں ہے،حضرت سُوید بن غفلہ فرماتے ہیں:”الْمُتَشَبِّهَةُ بِالرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ لَيْسَتْ مِنَّا، وَلَسْنَا مِنْهَا“ مَردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں کا ہم سے اور ہمارا اُن سے کوئی تعلّق نہیں ۔(ابن ابی شیبہ :26495)چوتھی خامی:کفار و مشرکین کی مُشابہت اختیار کرنا : شکل و صورت ، لِباس و پوشاک ، رہن سہن ، چال چلن ، سیرت و گفتار اور وضع قطع میں کافرانہ ومُشرکانہ روِش کو اپنانا اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے طرزِ زندگی کو اختیار کرنا شرعاً ممنوع اور ناجائز تو ہے ہی ، دینی غیرت و حمیت کے بھی سراسر خلاف ہے۔ایک اللہ کو ماننے والی ،اُس کے نبی کی چاہنے والی مؤمن اور مسلمان عورت کیلئےیہ بات کیسے گوارہ ہوسکتی ہے کہ وہ اللہ اور اُس کے رسول کا نام لیوا بن کر اُنہی کے دشمنوں اور نہ ماننے والوں کی نقالی اور اُن کے نقشِ قدم کو اپنی کامیابی کی معراج سمجھے …!!۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جوعورت کلمہ پڑھ کر بھی زندگی کے طور طریقوں میں اللہ اور اُس کے رسول کے باغیوں کی مشابہت اختیار کرے اُس کو درحقیقت اللہ اور اُس کے رسول سے کوئی محبت و پیار نہیں ، کیونکہ اگر اُس کے دل میں ذرا سی بھی محبت ہوتی تو کبھی اپنے محبوب کی زندگی سے بغاوت کرنے والوں کی راہ کو نہ اپناتی ۔؏ اِرشادِ باری ہے:﴿وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ﴾ترجمہ:اور(مسلمانو!)ان ظالم لوگوں کی طرف ذرا بھی نہ جھکنا ، کبھی دوزخ کی آگ تمہیں بھی آپکڑے۔(ھود :113،آسان ترجمہ قرآن ) علّامہ بیضاوی فرماتے ہیں:قرآن کریم میں ”رکون“سے منع کیا گیا ہے اور رکون ادنی درجہ کےمیلان(مائل ہونے) کو کہتے ہیں ، لہٰذا آیت کا مطلب یہ ہوگا :”وَلَا تَمِيْلُوا إِلَيْهِمْ أَدْنَى مَيْلٍ فَإنَّ