عورتوں کی خوبیاں اور خامیاں |
یک ایسی |
|
أَنَّ حُسْنَ تَبَعُّلِ إِحْدَاكُنَّ لِزَوْجِهَا، وَطَلَبَهَا مَرْضَاتِهِ، وَاتِّبَاعَهَا مُوَافَقَتَهُ تَعْدِلُ ذَلِكَ كُلَّهُ“اے خاتون! جاؤ اور اپنے پیچھے تمام عورتوں کو بتادو کہ تم میں کسی کا اپنے شوہر کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ، اُس کی رضاء و خوشنودی کی طلب میں رہنا اور (تمام کاموں میں )اس کی موافقت کی پیروی کرنا اِن تمام(مَردوں کی فضیلت میں ذکر کردہ) عبادتوں کے برابر ہے۔راوی کہتے ہیں: پھر وہ خاتون خوشی کے عالَم میں تہلیل اور تکبیر کہتے ہوئے چلی گئیں۔(شعب الایمان:8369)چونتیسویں صفت:علم حاصل کرنا : عورت کی ایک بہترین صفت یہ ہے کہ وہ حصولِ علم کیلئے کوشاں رہے،دینی مسائل کے سیکھنے سکھانے اور اُن کو مستند ذرائع سے حاصل کرنے کیلئے سرگرمِ عمل رہے ،کوئی مسئلہ اگرچہ وہ شرم و حیاء ہی کا ہو لیکن اُس کے پوچھنے میں شرم اور عار نہ سمجھے،کیونکہ اِسی سے دین کا صحیح رُخ سمجھ آتا ہے اور ضلالت و گمراہی سے حفاظت ہوتی ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺکی خدمت میں مسائلِ دینیہ کے سیکھنے اور اُنہیں دریافت کرنے کیلئے صرف صحابہ کرام ہی نہیں بلکہ صحابیات رضی اللہ عنہن بھی تشریف لایا کرتی تھیں،احادیثِ طیّبہ میں صحابیات کے علمی ذوق اور دینی شوق کے بہت سے قصے ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ ایک روایت میں ہے،امّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہفرماتی ہیں :”نِعْمَ النِّسَاءُ نِسَاءُ الْأَنْصَارِ لَمْ يَكُنْ يَمْنَعُهُنَّ الْحَيَاءُ أَنْ يَتَفَقَّهْنَ فِي الدِّينِ، وَأَنْ يَسْأَلْنَ عَنْهُ“انصار کی عورتیں کیا ہی بہتر ہیں اُنہیں دین میں سمجھ بوجھ حاصل کرنے اور دینی مسئلہ کو دریافت کرنے میں کوئی شرم وحیاء مانع نہیں ہوتی۔(مصنف عبد الرزاق:1208)