عورتوں کی خوبیاں اور خامیاں |
یک ایسی |
|
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصفرماتے ہیں:”مَثَلُ الَّذِي يَأْتِي الْمُغِيبَةَ لِيجْلِسَ عَلَى فِرَاشِهَا، وَيَتَحَدَّثَ عِنْدَهَا، كَمَثَلِ الَّذِي يَنْهَشُهُ أَسْودُ مِنَ الْأَسَاوِدِ“جو کسی ایسی عورت کے پاس اُس کے بستر پر بیٹھنے کیلئے آئے جس کا شوہر گھر پر نہ ہو،اس کی مثال اُس شخص کی طرح ہے جس کو کالے اور سیاہ سانپوں میں سے کوئی سانپ ڈس لے۔(مصنّف عبد الرزاق:12547)پینتیسویں خامی:زنا کرنا : ایک اِنسان کیلئے اس سے بڑی کیا خامی ہوگی کہ وہ انتہائی درجہ کے اُس گندے فعل کا اِرتکاب کربیٹھے جس کی حُرمت اور قباحت و شناعت میں کچھ کہنے کی بھی ضرورت بھی نہیں ،ہر شخص اس کی مضرّتوں اور نقصانات کو اور اس کی وجہ سے اللہ کے نازل ہونے والے قہر و غضب کو بہت حد تک جانتا اور سمجھتا ہے،دنیا کا کوئی مذہب اس کے جواز اور اِس کی اِباحت کا قائل نہیں ،ہاں !جدید دَور کے جدّت پسند اور مغرب کےمادر پدر آزاد مُعاشرے سے مرعوب اور متاثر لوگ ضرور یہ کہتے ہوئےنظر آتے ہیں کہ ایک مَرد اور عورت جب باہمی رضامندی کے ساتھ جنسی عمل پر راضی ہوں تو اُن کو اپنے طبعی تقاضوں کے پورا کرنے میں پابند نہیں کرنا چاہیئے ۔لیکن اُن کی یہ بات اِس قدر گری پڑی ہےکہ جس کے ردّ کیلئے دین و مذہب اور شرعی نصوص کی بھی ضرورت نہیں ،خود انسانی عقل اور فطرتِ انسانی ہی اِس کا اِنکار کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج اُس مادر پدر آزاد مُعاشرے سے خود اُس مُعاشرے کے افراد بھی نالاں اور پریشان ہوچکےہیں۔ ذیل میں اس گھناؤنے فعل کی مذمّت پر مشتمل قرآن و حدیث کی سخت اور شدید وعیدیں ملاحظہ فرمائیں: