ہیں کہ وہ طبعاً ایسے دعوؤں سے متنفر ہے جو ماننے اور نہ ماننے والوں کے درمیان کفر واسلام کی تفریق کے نظام دین کو اور اسلامی معاشرے کے نظام کو درہم برہم کرتے ہوں ۔ وہ مسلمانوں کی تاریخ سے واقف ہیں کہ صحابہ کرامؓ کے دور سے لے کر آج تک اس طرح کے مدعیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا رہا ہے۔ انہیں خوب معلوم ہے کہ جہاں حکومت مسلمانوں کے اپنے ہاتھ میں ہو وہاں نئی نئی نبوتوں کے چراغ نہ کبھی جلنے دیئے گئے ہیں اور نہ آئندہ کبھی امید کی جاسکتی ہے کہ جلنے دیئے جاسکیں گے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ صرف ایک غیر مسلم حکومت ہی میں آدمی کو یہ آزادی مل سکتی ہے کہ حکومت کو اپنی وفاداری وخدمت گزاری کاپورا اطمینان دلانے کے بعد مذہب کے دائرے میں جو دعویٰ چاہے کرے اورمسلمانوں کے دین، ایمان اور معاشرے میں جیسے فتنے چاہے اٹھاتا رہے۔ اس لئے وہ ہمیشہ اسلام کی حکومت پر کفر کی حکومت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگرچہ ان کی شکار گاہ مسلمان قوم ہی ہے۔ کیونکہ وہ اسلام کے نام پر اپیل کرتے ہیں اور قرآن وحدیث کے اسلحہ سے کام لیتے ہیں۔لیکن ان کا مفاد یہ مطالبہ کرتا ہے کہ مسلمان قوم ایک کافر اقتدار کے پنجے میں بے بس ہو کر ان کی شکار گاہ بنی رہے اور یہ اس کافر اقتدار کے پکے وفادار بن کر اس کا شکار کرتے رہیں۔ ایک آزاد خود مختار مسلمان قوم ان کے لئے بڑی سنگلاخ زمین ہے جسے وہ دل سے پسند نہیںکرتے اورنہیں کر سکتے۔
اس کے ثبوت میں مرزاغلام احمدقادیانی اوران کی جماعت کے بکثرت بیانات میں سے صرف چند کا نقل کردیناکافی ہے:
’’بلکہ اس گورنمنٹ کے ہم پر اس قدر احسان ہیں کہ اگر ہم یہاں سے نکل جائیں تو نہ ہمارامکہ میں گزارا ہو سکتا ہے اور نہ قسطنطنیہ میں۔تو پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم اس کے برخلاف کوئی خیال اپنے دل میں رکھیں۔‘‘ (ملفوظات جلد اول ص۳۱۲)
’’میںاپنے کام، نہ مکہ میں اچھی طرح چلا سکتا ہوں، نہ مدینہ میں، نہ روم میں، نہ شام میں، نہ ایران میں،نہ کابل میں، مگر اس گورنمنٹ میں جس کے اقبال کے لئے دعا کرتاہوں۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۶ ص۶۹، مجموعہ اشتہارات ج۲ص۳۷۰)
’’یہ توسوچو کہ اگر تم اس گورنمنٹ کے سائے سے باہر نکل جاؤ تو پھر تمہاراٹھکانہ کہاں ہے۔ ایسی سلطنت کا بھلا نام تو لو جو تمہیں اپنی پناہ میں لے لے گی۔ہر ایک اسلامی سلطنت تمہیں قتل کرنے کے لئے دانت پیس رہی ہے۔کیونکہ ان کی نگاہ میں تم کافر اورمرتد ٹھہر چکے ہو۔ سو تم