آپ نے اس کو یہی فرمایا کہ لڑکی کو بٹھائے رکھولیکن غیراحمدیوں میں نہ دو۔آپ کی وفات کے بعد اس نے غیر احمدیوں کو لڑکی دے دی تو حضرت خلیفہ اول نے اس کو احمدیوں کی امامت سے ہٹا دیاگیا اور جماعت سے خارج کردیااوراپنی خلافت کے چھ سالوں میںاس کی توبہ قبول نہ کی۔باوجودیکہ وہ بار بار توبہ کرتا رہا۔‘‘ ( انوار خلافت ص۹۳،۹۴)
’’حضرت مسیح موعود نے غیر احمدیوں کے ساتھ صرف وہی سلوک جائز رکھا ہے جو نبی کریمؐ نے عیسائیوں کے ساتھ کیا۔غیر احمدیوں سے ہماری نمازیں الگ کی گئیں۔ان کولڑکیاں دینا حرام قرار دیاگیا۔ان کے جنازے پڑھنے سے روکاگیا۔ اب باقی کیا رہ گیا جو ہم ان کے ساتھ مل کر کر سکتے ہیں؟ دوقسم کے تعلقات ہوتے ہیں۔ایک دینی،دوسرے دنیوی، دینی تعلق کا سب سے بڑاذریعہ عبادت کا اکٹھا ہونا ہے اوردنیوی تعلق کا بھاری ذریعہ رشتہ ناطہ ہے۔ سو یہ دونوں ہمارے لئے حرام قرار دیئے گئے۔اگر کہو کہ ہم کو ان کی لڑکیاں لینے کی اجازت ہے ،تو میں کہتا ہوں نصاریٰ کی لڑکیاں لینے کی اجازت ہے اوراگر یہ کہو کہ غیر احمدیوں کو سلام کیوں کہاجاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث سے ثابت ہے کہ بعض اوقات نبی کریمؐ نے یہودتک کو سلام کا جواب دیا ہے۔‘‘
( کلمتہ الفصل ص۱۶۹)
یہ قطع تعلق صرف تحریر وتقریرہی تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے لاکھوں آدمی اس بات کے شاہد ہیں کہ قادیانی عملاً بھی مسلمانوں سے کٹ کر ایک الگ امت بن چکے ہیں۔ نہ وہ ان کے ساتھ نماز کے شریک، نہ جنازے کے،نہ شادی بیاہ کے۔اب اس کے بعد آخر کون سی معقول وجہ رہ جاتی ہے کہ ان کو اورمسلمانوں کوزبردستی ایک امت میں باندھ رکھاجائے؟ جوعلیحدگی نظرئیے اورعمل میں فی الواقع رونماہوچکی ہے اورپچاس برسوں سے قائم ہے،آخر اب اسے آئینی طور پر کیوں نہ تسلیم کرلیاجائے؟
حقیقت یہ ہے کہ قادیانی تحریک نے ختم نبوت کی ان حکمتوں اورمصلحتوں کو اب تجربے سے ثابت کردیا ہے جنہیں پہلے محض نظری حیثیت سے سمجھنا لوگوں کے لئے مشکل تھا۔ پہلے ایک شخص یہ سوال کر سکتا تھا کہ آخر کیوں محمدعربیﷺ کی نبوت کے بعد دنیا سے ہمیشہ کے لئے انبیاء کی بعثت کا سلسلہ منقطع کردیاگیا ۔لیکن اب قادیانی تجربے نے عملاً ثابت کردیا کہ امت مسلمہ کی وحدت اوراستحکام کے لئے ایک نبی کی متابعت پر تمام کلمہ گویان توحید کو مجتمع کردینااللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی رحمت ہے اورنئی نئی نبوتوں کے دعوے کس طرح ایک امت کوپھاڑ کر اس کے اندر مزید امتیں بنانے اور اس کے اجزاء کوپارہ پارہ کرنے کے موجب ہوتے ہیں۔ اب اگر یہ تجربہ ہماری آنکھیں