M
دیباچہ
اس مختصر کتابچہ میں وہ تمام دلائل جمع کردیئے گئے ہیں ۔ جن کی بناء پر ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت قرار دیا جائے۔اس کے ساتھ ان تمام اعتراضات اورعذرات کا جواب بھی دیاگیا ہے ۔جو اس مطالبے کے خلاف مختلف حلقوں سے پیش کئے جاتے ہیں۔ جمہوری نظام کا یہ مسلم قاعدہ ہے کہ یا تو دلیل سے بات مانو یا دلیل سے منواؤ۔ محض طاقت کے بل پر ایک معقول ومدلل بات کورد کرنا جمہوریت نہیں ہے۔اس لئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک کے آئین ساز حضرات یا تو دلیل سے ہماری بات مانیں ۔یاسامنے آکر دلائل پیش کریں۔ جن کی بناء پر ہماری اس بات کو نہیں مانتے۔محض اس بھروسے پر کہ مجلس آئین ساز میں انہیں اکثریت حاصل ہے۔اگر وہ ایک معقول عوامی مطالبے کو بلادلیل رد کریں گے تو یہ ان کے اپنے ہی حق میں نقصان دہ ہوگا۔عوامی مطالبہ آخر کار پورا ہو کر ہی رہے گا۔ ابو الاعلیٰ مودودی !
قادیانی مسئلہ
گزشتہ ماہ جنوری ۱۹۵۳ء میں پاکستان کے ۳۳ سربرآوردہ علماء نے تازہ دستور ی سفارشات پرغوروغوض کر کے جو اصلاحات اور جوابی تجاویز مرتب کی ہیں۔ان میں سے ایک اہم تجویز یہ بھی ہے کہ: ’’ان تمام لوگوں کو جو مرزا غلام احمد قادیانی کو اپنامذہبی پیشوا مانتے ہیں۔ایک جداگانہ اقلیت قرار دیا جائے اوران کے لئے پنجاب سے مرکزی اسمبلی میں ایک نشست مخصوص کر دی جائے۔‘‘ جہاں تک علماء کی دوسری تجاویز کاتعلق ہے ۔ان کی معقولیت تواتنی واضح ہے کہ علماء کے مخالفین کو بھی ان پر کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوسکی اوراگر انہوں نے کچھ کہا بھی تو وہ جگر سوختہ کے دھوئیں سے زیادہ نہ تھا۔جس کا ملک کے پڑھے لکھے اورذی فہم لوگوں کی نگاہ میں کوئی وزن نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس خاص تجویز کے بارے میں ہم محسوس کرتے ہیں کہ قادیانی مسئلے کا بہترین حل ہونے کے باوجود تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد ابھی تک اس کی صحت ومعقولیت کی قائل نہیں ہوسکی ہے اورپنجاب و بہاولپور کے سواء دوسرے علاقوںخصوصاًبنگال میں ،ابھی عوام الناس بھی پوری طرح اس کاوزن محسوس نہیں کررہے ہیں۔اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ ان صفحات میں پوری وضاحت کے ساتھ وہ دلائل بیان کر دیں جن کی بناء پر علماء نے بالاتفاق یہ تجویز پیش کی ہے۔