بجالارہے تھے اور اس پرطرفہ تماشا یہ کہ مرزائی موقعہ پرستوں کی مجرمانہ سازشں کے تحت ابھی تک حکومت پاکستان نے کشمیری مہاجروں کو مہاجرہی تسلیم نہیں کیاتھا اورانہیں دارالامان پاکستان میں سرچھپانے کے لئے مکان تک ملنا دشوار تھا۔ان غایت درجہ پریشان کن اورتشویشناک حالات میں قائد ملت چودھری غلام عباس خان ڈوگرہ قید سے رہا ہو کر پاکستان پہنچے اورانہوں نے آتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ بابائے ملت حضرت قائداعظمؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر انہیں کشمیری مہاجرین کی بے سروسامانی اورپریشانی سے مطلع کیا۔ انہیں اس شرارت سے باخبر کیا کہ کشمیریوں کو ابھی تک دیگر مہاجرین کی طرح رہنے سہنے کی رعایتیں حاصل نہیں۔
چنانچہ قائد ملت کی بروقت کوشش سے نہ صرف کشمیری مہاجرین کو ’’مہاجر‘‘قرار دیا گیا بلکہ قائداعظمؒ نے مہاجرین کشمیر کی فوری اور مناسب امداد کے لئے کروڑوں روپیہ ریلیف فنڈ سے صرف کرنے کافرمان جاری فرمایا اور تمام صوبائی حکومتوں کو تاکید کی گئی کہ وہ کشمیری مہاجروں کو اپنا محبوب مہمان سمجھتے ہوئے انہیں پاکستان میں زیادہ سے زیادہ آسائش مہیا کریں۔چنانچہ یہ قائد ملت کی مہاجر پروری اورحضرت قائداعظمؒ کی فیاضی اورسیر چشمی ہی کانتیجہ ہے کہ آج کشمیری مہاجر جہاںکہیں بھی ہیں۔حکومت پاکستان کے مہمان تصور کئے جاتے ہیں ۔ ورنہ فرقہ باطلہ مرزائیہ کے زیراثر خدائی فوج داروں نے تو اس قسم کا طرز عمل اختیار کررکھا تھا کہ کشمیری مسلمان پاکستان سے عقیدت ومحبت کے جذبات کھو بیٹھیں،بلکہ الٹا بدگمانیوں کاشکارہوکر کوئی ایسی حرکت کربیٹھیں جس سے ان کی پاکستان کے متعلق وفاداری مشتبہ ہو جائے۔
قائدملت نے کشمیری مہاجروں کی پرورش اورنگہداشت کا مسئلہ حل کرکے مسلمانان جموں وکشمیر کی صفوں کو از سرنو درست کرنے اور ’’آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس‘‘ کو ایک فعال جماعت کی حیثیت سے عوام پاکستان اورحکومت پاکستان سے متعارف کرانے پر توجہ مبذول فرمائی اور اپنی مسیحا نفسی سے جہاں پوری قوم میں حیات تازہ کی روح پھونکی وہاں مسلمانان ریاست کی واحد نمائندہ جماعت آل جموں وکشمیر کی اہمیت سے حکومت کو آگاہ کرنے اوراسے مسلمانان کشمیر کی نمائندگی کا بلاشرکت غیرے حق دار قرار دلوا کر قومی وقار کو بحال کیا۔مفتن وبداندیش عناصر کو جماعت سے خارج کرنے ،نسلی اورنسبتی تفوق وبرتری کے دعویداروں اورمسلمانوں میں ذات پات اورصوبائی تعصب کی بناء پر امتیازات برتنے والے منافقوں کی گوشمالی کرنے کے علاوہ آزاد کشمیر حکومت میں فسطائی رجحانات کا خاتمہ کیا اوراسلامی جمہوری بنیادوں پر جدید حکومت کی تشکیل کرکے اسے زیادہ سے زیادہ مفاد عامہ میں دلچسپی لینے کاپابند بنایا اورمرزائیوں کی پس پردہ