’’ویقال ان اھل المغرب لما بلغھم ولایتہ القضا تعجبواونسبوا المصریین الی قلۃ المعرفۃ بحیث قال ابن عرفۃ کنا نعد خطۃ القضاء اعظم المناصب فلما ولیھا ھذا عدنا ھا بضد من ذالک (الضوالامع ص۱۸۶ج۴)‘‘
{یعنی کہا جاتا ہے کہ اہل مغرب کی جب ان کی قضاء کے منصب پر فائز ہونے کی خبر ملی تو انہوں نے تعجب کیا اوراہل مصر کے متعلق کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ مردم شناس نہیں ہیں اور ابن عرفۃ نے کہا کہ ہم قضاء کے منصب کو بہت عظیم وجلیل منصب سمجھتے تھے۔لیکن ان جیسے لوگ جب قاضی بنے تو اب قضاء کی وہ عظمت باقی نہیں رہی۔ اگرچہ کچھ وقت فقہ وحدیث کی تدریس بھی کی۔لیکن اکثر زندگی امراء کی مصاحب اورحکومت کے مختلف عہدوں پر رہنے کی وجہ سے ان علوم کی طرف پوری توجہ نہیں تھی۔}
علامہ سخاویؒ نے اپنے استاذ حافظ ابن حجرؒ نے نقل کیا ہے کہ ابن الخطیب نے ان کے (یعنی ابن خلدون) کے حالات میں ان کے بہت سے اوصاف لکھے ہیں۔ لیکن سخاوی لکھتے ہیں کہ :’’ومع ذالک فلم یصفہ فیما قال شیخنا ایضا بعلم وانما ذکر لہ تصانیف فی الادب وشیئا من نظمہ (الضوء الامع ص۱۵۷ج۴)‘‘یعنی بہت سی صفات کے ساتھ ان کا ذکر تو کیا ہے۔لیکن باوجود ان صفات کے جیسے کہ ہمارے شیخ نے کہا کہ علم صنعت کے ساتھ ان کو موصوف نہیں کیا۔ ادب میں ان کی کچھ تصانیف کا ذکر کیا ہے اوران کے کچھ منظوم کلام کاذکر کیا ہے۔
اس کے بعد علامہ سخاویؒ نے حافظ ابن حجرؒ کا یہ قول ان کے متعلق نقل کیا ہے کہ: ’’قال شیخنا ولم یکن بالماھر فیہ…الخ (ص۱۴۷ج۴)‘‘کہ علم ادب میں بھی ماہر نہیں تھے۔
علامہ رکرا کی سے کسی نے ابن خلدون کے متعلق پوچھا تو فرمایا:
’’عری عن العلوم الشرعیۃ لہ معرفۃ بالعلوم العقلیۃ من غیر تقدم تقدم فیھا (الضوء الامع ص۱۴۷ج۴)‘‘کہ علوم شرعیہ یعنی فقہ حدیث تفسیر وغیرہ سے عاری تھے اور علوم عقلیہ میں کچھ درک تھا۔ لیکن اس میں بھی تقدم حاصل نہ تھا۔
علامہ مقریزی نے ان کی تاریخ اورمقدمہ کی بہت تعریف کی اوربہت کچھ اوصاف بیان کئے۔لیکن حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ :’’وماوصفھا بہ فیما یتعلق بالبلاغۃ