نام ونسب
عبدالرحمن بن محمد بن محمد بن محمد بن الحسن بن محمد بن محمد بن ابراہیم بن محمد بن عبدالرحیم۱؎ یہ ان کا پورا نام ونسب ہے۔ اصلاً تونس کے باشندے تھے۔ تونس کی طرف منسوب ہوکر تیونسی کہلاتے تھے۔ اسی طرح اسی علاقے کے ایک مقام اشبیلہ کی طرف منسوب ہوکر اشبیلی کہلاتے تھے۲؎۔ ۷۳۲ھ میں بدھ کے دن رمضان کے اوائل میں ان کی پیدائش تونس میں ہوئی اوروہیں پر ان کا بچپن گزرا۔عبداﷲ بن سعد بن نزال کے پاس قرآن پڑھا اورابوعبداﷲ محمد بن عبدالسلام وغیرہ سے فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ عبدالمہیمن حضرمی اورمحمد بن ابراہیم اربلی سے معقول کی تعلیم حاصل کی۔
علامہ سخاوی نے ضوء الامع میں ان کے اساتذہ کی تفصیل لکھی ہے۔ علم حدیث کی تحصیل ابوعبداﷲ محمد بن عبدالسلام اورابوعبداﷲ داد یاشی سے کی۔ علامہ سخاوی سے خود انہی سے نقل کیا ہے کہ صحیح بخاری ابوالبرکات بلقینی سے سنی اورموطا امام مالک محمد بن عبدالسلام سے سنی اورصحیح مسلم علامہ دادیاشی کے پاس پڑھی اور علم قرأت کی تحصیل محمد بن سعد بن نزال انصاری سے کی۔ علم ادب سے بھی گہرا تعلق تھا اور حبیب بن اوس کے اشعاراوردیوان متنبی کا کچھ حصہ یاد تھا۔ مختصر یہ کہ اکثر علوم کی تحصیل بقول ابن العماد حنبلی برع فی العلوم وتقدم فی الفنون وماھر فی الادب (شذرات الذہب ص۷۶ج۷)یعنی علوم میں کامل،فنون میں مقدم اورادب میں ماہر تھے۔ مالکی المذہب تھے اورقاہرہ میں مالکی مذہب کے قاضی بنائے گئے۔
ایک دفعہ قضاء سے معزول کئے گئے۔پھر دوبارہ قاضی بنائے گئے۔اسی طرح کبھی معزول کئے جاتے اورکبھی دوبارہ اس عہدہ پر مقرر کئے جاتے تھے۔ پھر۸۰۸ھ میں بدھ کے دن رمضان کے مہینے میں انتقال ہوا۔ امور سیاست میں ماہر تھے اورحکومت کے مختلف عہدوں پر رہنے کی وجہ سے عملی تجربہ بھی حاصل تھا۔ لیکن ان امور کے باوجود فقہ وحدیث میں وہ مقام حاصل نہ تھا جو اس وقت کے دوسرے آئمہ اورقضاۃ کو حاصل تھا۔اسی لئے علامہ سخاوی نے لکھا ہے:
۱؎ ملاحظہ ہو الضوء الامع لاھل القرن التاسع للامام السخاوی ص۱۴۵ج۴وشذرات الذھب لابن العماد الحبلی ص۷۶ج۷۔
۲؎ ملاحظہ ہو الضوء الامع ص۱۴۵ج۴وشذرات الذھب ص۷۶ج۷۔